Written by prs.adminJuly 10, 2013
Ahmed Nadeem Qasmi’s Death Anniversary – اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت اورنامور شاعر و ادیب احمد ندیم قاسمی کی برسی
Special Reports | خصوصی رپورٹس Article
اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کی تلخیوں کو لفظوں کا پیرہن دینے والے احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ءکو پنجاب کے علاقے خوشاب میں پیدا ہوئے تھے۔انکا اصل نام احمد شاہ تھا اورندیم ان کا تخلص تھا۔
احمد ندیم قاسمی نے ابتدائی تعلیم گاوں میں حاصل کی ۔ 1923ءمیں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔1931ءمیں میٹرک کیا اور بہاولپور کے ایک کالج سے انیس سو پینتیس میں بی۔ اے۔ کیا۔
انیس سو انتالیس میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہوگئے، اسی سال ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ چوپال شائع ہوا۔ 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے اور یہاں دو جریدوں تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی۔
انیس سو تینتالیس میں ادب لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ ریڈیو پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازم ہوگئے، انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تیرہ اور چودہ اگست 1947ءکی درمیانی شب انہی کا لکھا ہوا اولین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔ پھر ہاجرہ مسرور سے مل کر نقوش کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے، جبکہ اپنی وفات تک وہ مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے انھوں نے قاسمی کہانی، گھر سے گھر تک سمیت متعدد معروف ڈرامے تحریر کئے۔
وہ شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور صحافی تھے۔ انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تحریر کیں۔ ان کی شاعری کے بارہ مجموعے منظر عام پر آئے۔
احمد ندیم قاسمی میں کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔انہوں نے فرد کی ذات کی کیفیات کیساتھ معاشرتی ناہمواریوں اور مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ احمد ندیم قاسمی نے نہ صرف عوام کے مسائل پر لکھا بلکہ ان کے حل کیلئے عملی جدوجہد بھی کی اور اپنے عوام دوست نظریات کی بناءپر انہیں جیل بھی کاٹنا پڑی۔
انہیں اردو ادب کے لئے خدمات پر1968ءمیں تمغہ حسن کاکردگی اور 1980ءمیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اردو ادب کی یہ ہمہ جہت شخصیت دس جولائی دو ہزار چھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ لیکن اپنی تخلیقات کی صورت میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔ان ہی کے الفاظ میں :
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا، میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |