Written by prs.adminApril 11, 2013
Ahmad Rushdi’s Death Anniversary – معروف گلوکاراحمد رشدی کی برسی
Special Reports | خصوصی رپورٹس Article
کوکوکو رینہ جیسے سینکڑوں لازوال گیتوں کو گانے والے پاکستان کے معروف فلمی گلوکار احمد رشدی انیس سو اڑتیس کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ احمد رشدی 1954ءمیں حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے شروع کیا۔احمد رشدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1955ءمیں دیگر گلوکاروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ گایا تھا۔
انہوں نے فلم انوکھی کے مقبول عام گانے ” بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی ہے گھوڑا گاڑی “ سے شہرت حاصل کی۔تاہم 1961ءمیں لاہور آنے کے بعد فلم سپیرن کے گیت چاند سا مکھڑا گورا بدن، اور اگلے سال فلم مہتاب کے گیت گول گپے والا آیا گول گپے لایا نے احمد رشدی کو صف اول کا گلوکار بنادیا۔اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اورپلے بیک سنگنگ میں ان کے انداز کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہی۔
یوں تو احمد رشدی نے لالی ووڈ کے تمام ہیروز کے لئے گیت گائے لیکن چاکلیٹ ہیرو وحید مراد پر ان کی آواز کو موزوں ترین قرار دیا گیا۔ دونوں فنکاروں کے تال میل سے فلم ارمان کا گیت “اکیلے نہ جانا”کو کون بھول سکتا ہے۔اسی طرح “کچھ لوگ روٹھ کربھی”، “اے ابر کرم آج اتنا برس “ایسے بھی ہیں مہربان” جیسے سینکڑوں نغمے وحیدمراد کی بے مثال اداکاری اور احمدرشدی کی گائیگی کی بدولت امرہوگئے۔
1963ءسے 1977ءکا دور احمد رشدی کے عروج کا عہد تھا۔اسی عرصے میں انھوں نے فلم خاموش رہو کے لئے حبیب جالب کی غزل میں نہیں مانتا گا کر حبیب جالب کو بھی پاکستان بھر میں مشہور کردیا۔
اس کے علاوہ اس عرصے میں انھوں نے، “کیا ہے جو پیار تو بنھانا پڑے گا”، یا “دل کو جلانا ہم نے چھوڑدیا”، “کبھی تو تم کو یاد آئیں گے وہ نظارے” اور تجھے اپنے دل سے کیسے میں بھلا دوں جیسے یادگار گیت گائے۔
احمدر شدی کو پاکستان کا پہلا پاپ سنگر ہونے اور سب سے زیادہ فلمی نغمے گانے کا اعزازحاصل ہے،11اپریل 1983ءکو ، آج ہی کے دن احمد رشدی کی رسیلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔انہیں بعدازمرگ حکومت کی جانب سے ستارہ امتیازکے اعزاز سے نوازگیا تھا۔آج وہ ہم میں نہیں تاہم ان کے گائے ہوئے گیت ہر دور کے سننے والوں کو محظوظ کرتے رہیں گے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |