Written by prs.adminAugust 13, 2012
(Afghanistan Shoe Manufacturing Struggles) افغانی جوتے بنانے والی صنعت
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Business Article
افغانستان کی مقامی صنعتوں کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ جوتے بنانے کی صنعت بھی بہت سی مشکلات سے دوچار ہے۔چین سے سستی درآمدات اور خام مال پر زیادہ ٹیکسز ان مشکلات میں شامل ہیں۔
دس افراد مقامی ٹارگٹ شو فیکٹری میں جوتے بنانے میں مصروف ہیں۔68 سالہ محمد قاسم بھی ان میں سے ایک ہیں۔وہ پچاس برس سے یہ کام کررہے ہیں۔
محمد قاسم(male) “میں نے افغانستان بھر میں مختلف کارخانوں میں کام کیا ہے، یہ بات واضح ہے کہ افغان جوتے معیار کے لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں۔ چین سے آنے والے جوتوں کے مقابلے میں ہمارے جوتوں میں استعمال ہونے والے سامان کا معیار بہت اچھا ہوتا ہے”۔
افغانستان شومیکر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں ایک سو چالیس کارخانے موجود ہیں، جن میں سے بیشتر دارالحکومت کابل میں ہیں۔ ہر برس ان کارخانوں سے تین لاکھ جوتے تیار ہوتے ہیں، جبکہ پندرہ سو افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔تاہم جوتوں کی تیاری کیلئے لیدر درآمد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح رواں برس خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 10 فیصد بڑھا دی گئی۔ محمد آصف جامی شومیکر ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔
آصف(male) “میں نے کارخانوں کے مالکان اور ملازمین سے بات کی ہے، اکثر موجودہ صورتحال پر شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم دیگر ممالک جیسے پاکستان اور ایران سے سامان درآمد کرتے ہیں، مگر اس کی وجہ سے جوتے مزید مہنگے ہوجاتے ہیں اور لوگ انہیں خرید نہیں پاتے۔ ہمیں اس وقت چین سے آنے والے سستے جوتوں سے سخت مسابقت کا سامنا ہے”۔
چینی ساختہ جوتے افغانستان کی پچاس فیصد سے زائد مارکیٹ پر قبضہ جما چکے ہین۔ Mandawee Market کابل میں جوتوں کی خریداری کی مارکیٹ ہے، عثمان عظیمی یہاں کے ایک دکاندار ہیں، ان کے مطابق مقامی جوتوں کی فروخت کی شرح بہت زیادہ گر گئی ہے۔
عثمان(male) “افغان کارخانوں میں معیاری لیدر کے ساتھ اچھے جوتے بنائے جاتے ہیں، مگر اب صارفین نئے انداز کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔ چینی جوتے اگرچہ پلاسٹک سے تیار ہوتے ہیں مگر وہ زیادہ اسٹائلش ہوتے ہیں۔ افغان جوتے لیدر سے تیار ہوتے ہیں اور زیادہ عرصے تک چلتے ہیں، مگر وہ چینی جوتوں کے مقابلے میں کافی مہنگے ہیں۔ حکومت اس معاملے پر توجہ دے کر مقامی جوتے بنانے والوں کو سبسڈیز فراہم کرے”۔
جوتے بنانے والی صنعت کی مالیت 73 لاکھ ڈالر ہے جو کہ قالین بانی کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ چند برس قبل جوتے بنانے والی صنعت کو اس وقت فائدہ ہوا جب نئی افغان نیشنل سیکیورٹی فورس کا قیام عمل میں آیا، جبکہ 2010ءمیں نیٹو ممالک نے وہاں مقیم اپنے فوجیوں کیلئے مقامی صنعت سے جوتے خریدنے پر ترجیح دی۔تاہم حالیہ دنوں میں فوج کیلئے خریداری کا سلسلہ نیٹو سے افغان حکومت کی وزارت دفاع و داخلہ کو منتقل ہوگیا ہے، اور ان دونوں وزارتوں کا ذہن مختلف ہے۔ اب فوج کیلئے سستے جوتے چین اور پاکستان سے خریدے جارہے ہیں۔افغان ساختہ جوتوں کی قیمت 80 ڈالر کے قریب ہے، جبکہ چین سے آنے والے جوتوں کی لاگت صرف 22 ڈالر ہے۔محمد قاسم کا کہنا ہے کہ حکومتی معاونت کے بغیر یہ صنعت اپنی موت آپ مرجائے گی۔
قاسم(male) “افغانستان میں پیشہ ور جوتے بنانے والوں کی تعداد کافی ہے، مگر حکومت اس صنعت پر کوئی توجہ نہیں دے رہی، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے کارخانوں کو ملنے والے آرڈرز کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے”۔
حمید اللہ فاروقی کابل یونیورسٹی میں معاشیات پڑھاتے ہیں۔
حمید اللہ(male) “ہمارے کارخانوں میں پرانی مشینوں پر کام ہورہا ہے، جبکہ درآمدی جوتے جدید مشینوں اور ٹیکنالوجی سے تیار ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان مصنوعات درآمدی اشیاءکا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک میں آزاد مارکیٹ کا نظام معیشت موجود ہے، مگر ہمارے آئین کے مطابق حکومت مقامی صنعتوں کی حالت بہتر بنانے کی ذمہ دار ہے۔ حکومت کو افغان صنعتوں کے مسائل کا احساس کرتے ہوئے ان سے تعاون کرنا چاہئے”۔
Afghanistan Investment Supporting Agency ملکی صنعتوں کو ترقی دینے کی خواہشمند ہے۔ Wafi Allah Eftikhar اس ایجنسی کے سربراہ ہیں۔
(male) Wafi Allah Eftikhar “جوتوں کی صنعت ہمارے ملک کیلئے انتہائی اہم ہے، ہماری ایجنسی اس کے ساتھ تعاون کی کوشش کرتے ہوئے اسے خودانحصار بنانا چاہتی ہے۔ ہم مختلف اداروں سے بات چیت کررہے ہیں، خصوصاً افغان فوجی اداروں سے، جہاں افغان ساختہ جوتے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ انشاءاللہ بہت جلد جوتوں کی صنعت کیلئے مثبت نتائج سامنے آئیں گے”۔
اب واپس ٹارگٹ شو فیکٹر چلتے ہیں جہاں Fareed Ahmadi نامی کاریگر اپنے جذبات کا اظہار کررہا ہے۔
(male) Fareed Ahmadi “ہمیں اب تک حکومت کی جانب سے کسی قسم کی توجہ نہیں ملی۔ ہمیں توقع ہے کہ حکومت مقامی صنعتوں جیسی ہماری مدد کرے گی۔ اس سے ہماری معیشت بہتر ہوگی”۔
.
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply