Written by prs.adminMay 16, 2013
Afghan Government Bans Foreign TV imports – افغان میں غیرملکی ڈراموں پر پابندی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
طالبان عہد میں افغانستان میں ٹیلیویژن پر پابندی عائد تھی، مگر اب اس ملک میں ٹی وی چینیلز کی صنعت پھل پھول رہی ہے اور پچاس سے زائد چینیلز کام کررہے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینیلز سے بھارت، ترکی اور کوریا وغیرہ کے ڈرامے، گانے اور رقص نشر کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں صدر حامد کرزئی نے غیر اسلامی فلموں اور ٹی وی ڈراموں پر پابندی لگانے کی ہدایت کی، تاہم اس پر کافی تنقید سامنے آرہی ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
زمان اور عفت افغانستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے، یہ ایک محبت کی کہانی ہے جو ترکی میں تیار ہوئی ہے۔ یہ ڈرامہ افغانستان بھر میں پچیس سے زائد چینیلز پر روزانہ رات کو دکھایا جاتا ہے۔
بائیس سالہ یونیورسٹی کے طالبعلم واحد تابش اس ڈرامے کو بہت پسند کرتے ہیں۔
واحد”یہ میرے لئے تفریح کا ذریعہ ہے، جب میں سوپ اوپراز دیکھتا ہوں تو اس سے مجھے زندگی کے بارے میں جاننے میں بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ کچھ ڈراموں میں فحش یا شراب نوشی کے مناظر ہوتے ہیں، مگر باقی ڈرامے بہت اچھے ہیں”۔
تاہم علمائے کرام اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔انھوں نے ٹی وی چینیلز کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے کچھ پروگرام غیراخلاقی اور غیر اسلامی ہیں۔اس پر صدر حامد کرزئی نے رواں ماہ سے ٹی وی اسٹیشنز کو فحش اور غیر اسلامی شوز روکنے کا حکم دیا ہے۔ جلال نورانی وزارت ثقافت و اطلاعات کے مشیر ہیں۔
جلال”جی ہاں ہمیں صدر کی طرف سے یہ ہدایت ملی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ٹی وی چینیلز کوسوپ اوپراز یا میوزک پروگرام نشر کرنے سے روک دیں۔وہ یہ پروگرام نشر کرسکیں گے، مگر ایسے ڈرامے نہیں نشر ہوں گے جو مذہبی عقائد، روایات یا سماجی اقدار کے خلاف ہو”۔
طالبان دور میں ٹیلیویژن چینیلز پر مکمل پابندی تھی، تاہم ان کے انخلاءکے بعد اب افغانستان میں میڈیا تیزی سے ترقی کررہا ہے، افغانستان میں اب پچاس سے زائد نجی ٹی وی چینیلز، ڈیڑھ سو ریڈیو اسٹیشنز اور ایک ہزار کے قریب اخبارات کام کررہے ہیں۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر کرزئی کا حالیہ فیصلہ ملک میں میڈیا کی آزادی کو متاثر کرے گا۔عبد الحامد موباریز افغان نیشنل جرنلسٹ یونین کے سربراہ ہیں۔
حامدافغان آئین میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، مگر صدر کا حالیہ حکم نامہ آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے، اس طرح کی سنسر شپ کو ہم کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔ ہم اس سنسرشپ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ اس سے ماضی کے سیاہ دور کا احیاءہوگا۔ ہم اس فیصلے کیخلاف کھڑے ہوں گے، ہمارا ماننا ہے کہ یہ ہمارے ملک میڈیا پر پابندیوں کی ابتدا ہے”۔
یہ پہلی بار نہیں کہ افغان حکومت نے مقبول ٹی ڈراموں پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہو، 2009ءمیں بھی حکومت نے ٹی وی چینیلز کو بھارتی ڈرامے نشر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم اس حکم پر عمل نہیں ہوا تھا۔
کچھ افغان ڈائریکٹرز اور اداکاروں کا کہنا ہے کہ انکا کام اس فیصلے سے متاثر ہوگا۔اداکارہ صدیقہ تمکین کو توقع ہے کہ اس پابندی سے مقامی ڈرامہ صنعت متاثر نہیں ہوگی۔
صدیقہ”سوپ اوپراز معاشرے کیلئے ضروری ہے کیونکہ اس سے ہمارے معاشرے کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اداکاروں کو بھی کام کی ضرورت ہوتی ہے، میں یہ کام جاری رکھوں گی کیونکہ یہ میرا اپنے چاہنے والوں سے وعدہ ہے، طالبان دور میں ٹی وی پر پابندی تھی اور ہم پر حملے ہوتے تھے، مگر پھر بھی ہم اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے”۔
متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ کرزئی حکومت افغانستان کو ایک بار پھر طالبان دور میں لے جانے کی کوشش کررہی ہے۔تاہم حکومتی مشیر جلال نورانی کا کہنا ہے کہ ہم تو صرف مقامی روایات کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جلال”یہ بالکل واضح ہے کہ ہر ملک میں میڈیا نشریات کے حوالے سے اپنے قوانین ہوتے ہیں، ہم نے بھارت، ترکی یا دیگر مغربی ممالک کے ڈراموں پر پابندیاں لگائی ہیں، ان شوز کے کئی مناظر ہمارے مذہب اور روایات کے خلاف ہوتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ اس فیصلے کا معاشرے پر مثبت اثر پڑے گا۔ ہم ہر اس ٹی وی چینیل کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے جو صدارتی حکم نامے پر عملدرآمد نہیں کرے گا”۔
ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹرایلکا سادات انتہائی مقبول سیریز باہست خاموش کی ہدایت کار ہیں۔ اس میں نوجوانوں کو درپیش مسائل کو سامنے لایا گیا ہے، انکا ماننا ہے کہ یہ سوپ اوپراز ناظرین کو معاشرے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
ایلکا”ستر فیصد افغان شہری ان پڑھ ہیں، یہ لوگ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے اپنے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، چاہے یہ ڈرامے افغانی ہو، بھارت، امریکہ یا کسی اور ملک کے، طالبان دور میں لوگوں کو فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کی اجازت نہیں تھی، تاہم یہ مارکیٹ میں مل جاتے تھے۔ اب حکومت ٹی وی کو یہ نشر کرنے سے روکنا چاہتی ہے، تاہم وہ انٹرنیٹ یا بلیک مارکیٹ میں اس کی موجودگی کو نہیں روک سکتی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |