Written by prs.adminAugust 9, 2013
Adoption, Not An Easy Option in Malaysia? – ملائیشیاءمیں بچہ گود لینا آسان نہیں
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ملائیشیاءمیں چار لاکھ سے زائد بچوں کو گود لیا گیا ہے، مذہبی اور قانونی نظام کے تحت گود لینے کا عمل کافی طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے، جس کے باعث متعدد والدین مایوس ہوجاتے ہیں اور کچھ بچے خرید لیتے ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیںآج کی رپورٹ
بکتی ا نجونافطری نامی اس بچے کوفِن جمال نے گود لیا ہے۔
گن جمال”میرے خیال میں مجھے اس دنیا سے مزید اور کچھ نہیں چاہئےے، میں بہت خوش ہوں”۔
فِن جمال نے فیس بک پر پیغام کے ذریعے ایک بچے کو گود لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، کیونکہ شادی کے کئی برس بعد بھی وہ ماں بننے میں ناکام رہی تھیں، جس کے بعد ایک شخص نے اس بچے کو گود لینے کی پیشکش کی اور بکتی ارجونا فتری کی پیدائش کے چند ہفتے بعد ہی اس حوالے سے متعلقہ کاغذی عمل مکمل کرلیا گیا۔
فِن”یہ کافی آسان ثابت ہوا، میں یہ بات کہہ کر خوشی محسوس کررہی ہوں کہ ملائیشیاءمیں کاغذی دستاویزات مکمل کرانے کا عمل کافی آسان ہے، بس آپ کو شفافیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور کام ہوجائے گا”۔
یونیسیف کے تخمینے کے مطابق ملائیشیاءمیں چار لاکھ سے زائد بچوں کو گود لیا گیا ہے، جبکہ یہاں دو ہزار سے زائد یتیم خانے اور بچوں کیلئے دیگر مراکز بھی قائم ہیں۔
گوہ سیو لین خاندانی قوانین کی ماہر وکیل ہیں،انکا کہنا ہے کہ ایسی مائیں جو ایسی پوزیشن میں نہیں ہوتیں کہ پرورش کی ذمہ داریاں پوری کرسکیں وہ اپنے بچوں کو دیگر افراد کو دیدیتی ہیں۔
گوہ سیو”عام طور پر یہ وہ بن بیاہی لڑکیاں ہوتی ہیں، جو خاندانی منصوبہ بندی سے آگاہ نہیں ہوتیں، جب وہ بچے کی ماں بن جاتیں تو معاشرے میں ذلت سے بچنے کیلئے وہ اپنے بچے سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اگر ان ماﺅں کو معاشرے اور اپنے گھروں سے تعاون ملیں تو وہ کبھی اپنے بچوں کو نہیں چھوڑیں گی”۔
الیےا لم عبداللہ ایک این جی اورفن کیئر کی شریک بانی ہیں۔
عبداللہ”اس وقت ہمارے پاس تین ہزار جوڑے ویٹنگ لسٹ میں موجود ہیں، جن میں سے صرف چھ سو کے انٹرویوز ہی مکمل ہوسکے ہیں”۔
تاہم اگر اتنے زیادہ والدین بچوں کے خواہشمند ہیں تو پھر اتنی تعداد میں بچے یتیم خانوں میں کیوں موجود ہیں؟ ایلیا لم عبداللہ کے مطابق اس کی وجہ سرخ فیتہ ہے۔
لم”یتیم خانہ کا آغاز کرنے سے قبل ہمیں معلوم تھا کہ ایک جوڑے کو کسی بچے کو متعلقہ وزارت سے گود لینے میں کم از کم دو سال لگ جاتے ہیں، اور لوگ اتنا طویل انتظار کرنا پسند نہیں کرتے”۔
گو سیو لِن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص بھی طویل طریقہ کار کو برداشت نہیں کرسکتا۔
گوہ سیو”اگر بچے کے والدین موجود ہیں، تو باہمی رضامندی سے کام جلدی ہوجاتا ہے، تاہم اگر والدین موجود نہ ہوں یا ذہنی طور پر معذور ہوں تو پھر گود لینے کیلئے آپ کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے”۔
یتیم خانے جیسے لائٹ ہاوس چلڈرن ویلفیئر ایسوسی ایشن ایسے بچوں کو گود نہیں دیتے جن کے والدین موجود ہوں جیسینٹا سٹیون اس یتیم خانے کی ڈائریکٹر ہیں۔
سٹیون”یہ سب بچے غریب گھرانوں سے آتے ہیں، ان میں سے کچھ تو جسمانی اور جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں”۔
اگرچہ ان بچوں کو گود نہیں لیا جاسکتا تاہم جیسینٹا کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو اس بارے میں پوچھنے سے نہیں روک سکتیں۔
سٹیون”لوگ یہاں آکر ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس دس سے بارہ سال کی عمر کا کوئی بچہ ہے جسے گود لیا جاسکے؟ جس پر میں پوچھتی ہوں کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں چونکہ وہ بوڑھے ہورے ہیں تو انہیں کسی دیکھ بھال کرنے والے کی ضرورت ہے، جس پر میں کہتی ہوں کہ کسی کو گود لینے کیلئے یہ وجہ کافی نہیں”۔
سیو لِن اورایلیاکے خیال میں گود لینے کے عمل میں تیزی لاکر اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایلیا”ہمیں گود لینے کے قوانین کا جائزہ لیکر اس عمل کو آسان بنانا چاہئے۔ ہمیں مزید پبلسٹی کی ضرورت ہے، اور ہمیں لگتا ہے کہ حکومت کو خود کہنا چاہئے کہ یہ بچے ان جگہوں پر موجود ہیں اور وہاں سے انہیں گود لیا جاسکتا ہے”۔
فن کیلئے اپنے بچے کے والدین کی شناخت سے عدم واقفیت کوئی مسئلہ نہیں، اس کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے بچے کیلئے مطلوبہ دستاویزات حاصل کرچکی ہے۔تاہم اپنے بچے کو شناخت دینے کیلئے وہ اس کے حقیقی والدین کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔
فن”میں چاہتی ہوں کہ میرا بچہ محسوس کرے، دو مائیں اور دو باپ کی موجودگی سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |