Written by prs.adminMarch 17, 2014
A New Fight in India: Against Pollution – بھارتی ہوائی آلودگی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارت میں ہر سال ہوائی آلودگی چھ لاکھ افراد کی زندگیاں ختم کررہی ہے، حالیہ مہینوں کے دوران ہوائی معیار مزید بدتر ہوگیا ہے جس سے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، متعدد افراد کا تو ماننا ہے کہ نئی دہلی نے چینی شہر بیجنگ سے سب سے زیادہ آلودہ شہر ہونیکا منفی اعزاز چھین لیا ہے، اسی بارے میں سنتے ہیںآج کی رپورٹ
دہلی کے نواح میں واقع ایک چھوٹے سی کریانہ اسٹور میں پچپن سالہ سرفرار احمد گرم چائے کے کپ سے سردی بھگانے کی کوشش کررہے ہیں، ان جیسے دمہ کے مریضوں کیلئے موسم سرما کافی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے، اس موسم میں دہلی میں دھند عام ہوجاتی ہے، جس سے ہوائی اور ریلوے ٹریفک بری طرح متاثر ہوتا ہے، مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر سرفراز جیسے شہریوں کی صحت ہوتی ہے۔
سرفراز”یہ بہت گندی جگہ ہے، یہاں آپ سانس تک نہیں لے سکتے، یہاں ہر وقت ہوا میں انتہائی ناگوار بو پھیلی رہتی ہے اور مجھے گھنٹن کا احساس ہوتا ہے، میں بہت تھکا ہوا اور خود کو کمزور محسوس کرتا ہوں، کئی بار تو ادویات کا بھی اثر نہیں ہوتا، مگر ہمارے پاس دہلی میں رہنے کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں، کیونکہ کوئی اور جگہ رہنے کیلئے موزوں نہیں رہی”۔
سرفراز جیسے خیالات بھارتی دارالحکومت کے لاکھوں رہائشیوں کے بھی ہیں۔
شہر میں ہوائی آلودگی کی بلند شرح نے عوامی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے، خصوصاً سانس کے امراض تو بہت زیادہ عام ہوگئے ہیں، جبکہ نمونیا کے کیسز میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے، لین دھر دہلی کے ایک ڈاکٹر ہیں۔
دھر”آلودگی نے ہر عمر کے افراد کو عموماً اور بزرگوں و بچوں کو خصوصاً متاثر کیا ہے، کیونکہ ان میں بیماریوں کیخلاف مزاحمت کی قوت کم ہوتی ہے، اب تو اس موسم میں سانس کے امراض عام ہوتے جارہے ہیں، جبکہ گلے اور سینے کے انفیکشن کے متعدد کیسز بھی سامنے آتے ہیں، جس کی وجہ یہ آلودگی ہی ہے”
گلوبل انوائر مینٹ پرفارمنس انڈیکس کے مطابق رواں برس نئی دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر بن سکتا ہے، ماہرین ماحولیات جیسے وویک اس انکشاف پر حیران نہیں۔
وویک”اگر ہم طویل المعیاد رجحان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا چین نے واقعی بہترین کام کیا ہے کیونکہ بیجنگ میں ہوائی آلودگی کے دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں چالیس فیصد تک کمی آئی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں دہلی میں گزشتہ دس برسوں کے دوران اتنا ہی اضافہ ہوا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہماری توجہ آلودگی میں کمی لانے پر مرکوز ہے مگر ہمیں اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلانا چاہئے کہ ہمارا ہاں آلودگی کی شرح بہت زیادہ بلند ہے اور ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہئے”۔
ٹرانسپورٹ کو دہلی میں ہوائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے، اس وقت دہلی کی سڑکوں پر اسی لاکھ سے زائد گاڑیاں رواں دواں ہیں، جبکہ اس میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار کا اضافہ ہورہا ہے۔
ویوک”دیگر ذرائع کے مقابلے مین گاڑیوں سے پیدا ہونیوالی آلودگی کی شرح سب سے زیادہ ہے، کیونکہ ان سے خارج ہونیوالا دھواں سانس لینے والے مقامات پر خارج ہوتا ہے، اور اس کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ہم نے حال ہی میں دہلی میں ایک تحقیق کرائی تھی جس کے مطابق آلودگی کی پچاس فیصد سے زائد شرح سڑکوں پر ہوتی ہے، تو یہ دھواں ہم پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے”۔
دو دہائی قبل نئی دہلی میں شفاف ایندھن کو فروغ دینے کیلئے بسوں اور رکشوں وغیرہ کو سی این جی پر منتقل کردیا گیا تھا، جس کے چند ماہ بعد ہی رکشہ ڈرائیور جیسے آر ایس شہر کی فضاءمیں واضح تبدیلی محسوس کی۔
آر ایس”یہاں دھویں کی موٹی تہہ اور بے تحاشہ مٹی سفر کو بہت مشکل بنادیتی تھی، ہمیں ہر وقت آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی تھی، مگر سی این جی کے آنے کے بعد سب کچھ تبدیل ہوگیا، وہ واقعی بہت بڑا ریلیف تھا”۔
مگر یہ تبدیلی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکی، وویک کا کہنا ہے کہ سی این جی کے فوائد اس وقت ختم ہوگئے جب ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔
وویک”یہ گاڑیاں کینسر کا سبب بن سکتی ہیں، یہ تمباکو جتنی ہی خطرناک ہیں اور اگر آپ ان کی بڑھتی تعداد کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دہلی کی ٹریفک میں شامل ہونیوالی پچاس فیصد گاڑیوں میں ڈیزل بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے، یہ شرح ایک دہائی قبل صرف دو فیصد تھی”۔
انکا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو ماحولیاتی آفت سے بچنے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
وویک”ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری لانا ہوگی اور لوگوں کو سیم لیس کنیکٹویٹی فراہم کرنا ہوگی، ہمیں گاڑیوں کی تعداد پر کنٹرول کی بھی ضرورت ہے، جبکہ پارکنگ چارجز، کنگیسٹشن ٹیکس وغیرہ کا نفاذ بھی کرنا چاہئے، جیسا بیجنگ اور سنگاپور میں کیا کیا گیا ہے، تو ایک طرف جہاں ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنی چاہئے وہیں دوسری ہمیں لوگوں کو اس طرف کھینچنا چاہئے، اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ ہمیں شفاف ایندھن کو مزید فروغ دینا چاہئے، اور آلودگی کا سبب بننے والے ایندھن کا استعمال ختم کرنا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |