Written by prs.adminJanuary 15, 2013
A Free School for Pakistani Girlsپاکستانی بچیوں کیلئے مفت اسکول
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
پاکستان کی تین فیصد سے بھی کم خواتین کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہوتی ہے، پرائمری تعلیم کے بعد اسکولوں سے لڑکیوں کے اخراج کی شرح بہت زیادہ ہے، ایلیزا بروہی اس رجحان میں تبدیلی کیلئے لڑکیوں کیلئے ایک مفت اسکول کیساتھ سرگرم عمل ہیں، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
چوبیس سالہ ایلیزا بروہی نے چار سال قبل پڑھانا شروع کیا تھا، شروع میں اس اسکول میں انکے خاندان کی گھریلو ملازمائیں، ڈرائیورز اور ایسے ہی افراد کے بچے اسکول میں داخل ہوئے، تاہم آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اب وہ مفت اسکول سیونگ دی فیو چر چلارہی ہیں، جس میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کی سو سے زائد بچیاں زیرتعلیم ہیں، یہ اسکول کراچی کے نواح میں واقع عیدو گوٹھ میں واقع ہے، تاہم شروع میں ایلیزا کیلئے سب سے بڑی مشکل والدین کو اپنی بچیاں اسکول بھیجنے کیلئے تیار کرنا تھا۔
ایلیزا”اگر کوئی بچیوں کو مفت تعلیم دینا چاہتا ہے تو اس پر کئی طرح کے شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شروع میں جو پچیس بچیاں یہاں آنا شروع ہوئیں انہیں روک دیا گیا”۔
صغراں بی بی کی دو بیٹیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں، انکا کہنا تھا کہ شروع میں بہت زیادہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔
صغراں”ہمارے گاﺅں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ بچے وہاں گم ہوجائیں گے، انہیں کوئی اغوا کرلے گا، میں نے ان پر اعتماد نہیں کیا اور اپنے شوہر سے کہا کہ میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں، اور میں انہیں اسکول جانے سے نہیں روکوں گی”۔
لوگوں کو قائل کرنے کیلئے ایلیزا نے مقامی بزرگ خاتون مائی مریم سے مدد طلب کی۔
مائی مریم”میں نے لوگوں کو بتایا کہ اس اسکول میں سب کچھ مفت ہے، ہم ایلیزا کیساتھ گھر گھر گئے اور اب اللہ کا شکر ہے کہ کافی تعداد میں بچے یہاں پڑھ رہے ہیں”۔
دس سالہ شاہین اس سے پہلے اسکول نہیں جاتی تھی کیونکہ اس کے والدین تعلیمی اخراجات کا بار اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔
شاہین”یہاں کا عملہ اور ماحول بہت زبردست ہے، میں پڑھنا چاہتی ہوں اور پولیس انسپکٹر بننا چاہتی ہوں”۔
پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، دیہی علاقوں میں اکثر لڑکیوں کی شادیاں ہی پندرہ سال کی عمر تک ہوجاتی ہیں، جبکہ تین فیصد سے بھی کم خواتین کو اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
سب سے پہلے ایلیزا کے والد نے اس اسکول کیلئے فنڈ قائم کیا، عبدالرزاق پاکستان اسٹیل مل کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔
عبدالرزاق”میں نے اپنے گاﺅں میں دیکھا تھا کہ خواتین کی حالت بہت کمزور ہے، لوگ خود کو بہادر اور فخرمند سمجھتے ہیں، مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ انہیں پیدا کس نے کیا؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ اپنی بیٹیوں سے بھی بیٹوں کی طرح محبت کرے اور احترام دیں، یہ چھوٹی بچپیاں ہی ہماری قوم کی مائیں بنیں گی”۔
ایلیزا نے سوشل میڈیا پر اپنے اسکول کیلئے فنڈز جمع کرنے کی مہم چلائی، سینٹر فار انٹرنیشنل پرائیویٹ انٹر پرائزز کے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر حماد صدیقی بھی اس اسکول کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں۔
حماد”نوے سے زائد لڑکیوں کو سوشل میڈیا مہم کے ذریعے اسپانسر شپ ملی ہے، اس کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ان بچیوں سے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی ہم انہیں جانتے ہیں، مگر اس نیک مقصد کیلئے یہ لوگ آگے آئے اور امداد دی”۔
ایلیزا کیلئے ان بچیوں میں خوداعتمادی پیدا کرنا اولین ترجیح ہے۔
ایلیزا”ہم انہیں آگے بڑھانا چاہتے ہیں، اسکول آنے سے پہلے بیشتر بچیاں گلیوں میں بھیک مانگتی تھیں، گھروں میں کام کرتی تھیں یا ہر وقت گلیوں میں کھیلتی رہتی تھیں۔ انہیں ہر طرح کے مظالم کا سامنا تھا، ہم انہیں اچھا ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں یقین دلانا ہے کہ اپنے غریب والدین کے مقابلے میں ان کا مستقبل روشن ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |