Written by prs.adminOctober 10, 2013
A Campaign to Fight India’s Obsession with Fair Skin – جلدی رنگت پر بھارتی مہم
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارتی عوام گورے رنگ کے دیوانے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ گورا رنگ ہی حسن اور اعلیٰ سماجی رتبے کی علامت ہے۔ مگر اب اس نظریئے کو تبدیل کرنے کیلئے ایک نئی مہم کا آغاز شروع ہوا ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ایک ٹی وی اشتہار میں رنگ گورا کرنے والی کریم کی خصوصیات بتائی جارہی ہیں، اس اشتہار میں معروف بالی وڈ فنکار شاہ رخ خان کہہ رہے ہیں کہ یہ کریم آپ کو زیادہ خوبصورت بنادے گی۔
اس طرح کے متعدد اشتہارات میں بالی وڈ اسٹار اور معروف کرکٹرز اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، تیس سالہ مالو تی مرمو ان مصنوعات پر بہت یقین رکھتی ہیں، وہ کئی برسوں سے رنگ گورا کرنے والی کریم استعمال کررہی ہیں۔
مالوتی”میری جلد کا رنگ گہرا ہے، اور اس کی وجہ سے مجھے متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میری تمام گوری سہیلیوں کی شادی ہوچکی ہے، میں خود کو بدقسمت سمجھتی ہوں کیونکہ میرا رشتہ ٹوٹ گیا، یہی وجہ ہے کہ میں اس کریم کو استعمال کرتی ہوں تاکہ جلد کا رنگ بہتر ہوسکے، اگر میری جلد صاف ہوگئی تو میں زیادہ خوبصورت نظرآﺅں گی اور میری زندگی بہتر ہوجائے گی”۔
دو ہزار دس میں مارکیٹ ریسرچر اے سی نیلسن نے بتایا کہ بھارت میں سالانہ رنگ صاف کرنے والی کریموں کے ذریعے کمپنیاں 400 ملین ڈالرز سے زائد کما رہی ہیں۔
مادان سین کولکتہ کے نواح میں ایک کریانے کی دکان چلارہے ہیں، جس میں کئی کریمیں بھی فروخت کی جاتی ہیں۔
مادان”میرے صارفین ہر عمر کے ہیں، جن میں کم عمر لڑکیوں سے لیکر معمر خواتین وغیرہ شامل ہیں، مگر میری بیشتر صارفین غیرشادی شدہ خواتین ہیں، کچھ مرد بھی ان کریومں کو خریدتے ہیں، ہر شخص ہی گورا نظر آنے کا خواہشمند ہے”۔
اس طرح کے اشتہارات میں بتایا جاتا ہے کہ صاف جلد ہی اعلیٰ سماجی رتبے یا شادی کی اہلیت کی علامت ہے، یعنی کامیابی اور خوبصورتی کا انحصار جلد کی رنگت پر ہے، ایک ورکنگ خاتون رینا ہلدار اپنی گہری رنگت کے باعث امتیازی سلوک کی شکایت کرتی ہیں۔
رینا “میرا نام رینا ہے، مگر میرے علاقے کے بیشتر لوگ مجھے کالی کہتے ہیں، کیونکہ میری جلد کا رنگ گہرا ہے، ہمارے معاشرے میں اگر آپ جلد گہرے رنگ کی ہو تو آپ کو بے پناہ بے عزتی اور ناخوشی کا سامنا ہوتا ہے، میرے خیال میں بھگوان نے مجھے کالے رنگ کا بناکر سزا دی ہے”۔
اب ایک این جی او نے اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کیلئے ایک مہم ڈارک اینڈ بیوٹیفل شروع کی ہے، اس مہم کو گزشتہ برس ایک گروپ ویمن آف وارتھ نے شروع کیا، کویتا امانوئل اس کی ڈائریکٹر ہیں۔
کویتا”خواتین، طالبات اور یہاں تک کے بچیوں سے ہماری بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ ہم کس حد تک جلد کے رنگ پر تعصب برتنے کے عادی ہیں، جس سے ہمارے بچے متاثر ہورہے ہیں۔ انکی خوداعتمادی ختم ہورہی ہے، ہم نے محسوس کیا تھا کہ کوئی بھی اس معاشرتی برائی پر آواز نہیں اٹھارہا جس پر ہم نے آگے آنے کا فیصلہ کیا، ہم اسے عام لوگوں کے سامنے لائے اور ان میں احساس پیدا کیا کہ وہ اپنی شخصیت سے محبت کریں”۔
اس مہم کا مقصد لوگوں کو جسمانی رنگت پر معتصب سوچ سے دور رکھنا ہے، جبکہ عوامی شخصیات کو بھی رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کے اشتہارات نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ فلمسٹار نندیا داس اس مہم کی پرجوش حامی ہیں۔
نندتا داس”لوگ یہ احساس دلاتے ہیں کہ کالی رنگت کے باعث معاشرے میں آپ کا کوئی مقام نہیں، آپ کے پاس مواقع محدود ہیں،
یہاں ایسی متعدد لڑکیاں ہیں جو مواقع نہ ملنے کے باعث بہت کچھ کرنے سے قاصر رہتی ہیں، میرا مطلب ہے کہ صاف رنگت والی خواتین کو زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں، کیا یہ نسلی تعصب نہیں؟”
تاہم ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سو شل سائنس سے تعلق رکھنے والی ثقافتی ماہر انجلی مونٹیرو کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی جنگ ہے۔
انجلی”میرا نہیں خیال کہ کسی ان کریموں پر پابندی لگ سکتی ہے یا انکے اشتہارات کو کسی ضابطے میں لایا جاسکتا ہے، اب تو خوبصورتی کا تعلق طاقت سے جوڑ دیا گیا ہے، مثال کے طور پر اگر افریقہ دنیا پر چھاجائے تو صاف کی بجائے سیاہ رنگت خوبصورتی کے زمرے میں آجائے گا “۔
یہ مہم ایک طالبہ ابھپسا چوہدری کے خیالات میں تبدیلی لائی ہے، اور اس کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس مہم کی حمایت کرنا چاہئے۔
ابھپسا”میں نے اس مہم کے بارے میں اخبارات میں پڑھا، میں اس بات کی مزمت کرتی ہوں کہ کسی سے اس کی جلد کی رنگت پر امیتاز برتا جائے، میرے خیال میں مارکیٹ میں موجود کریمیں ہی اس ناانصافی کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں، لوگوں کو ان تمام کریموں کا بائیکاٹ کردینا چاہئے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ اپنی ذات کی حد تک ان کریموں کا استعمال نہیں کروں گی”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |