Written by prs.adminJanuary 19, 2014
A Burmese award-winning female journalistبرمی خاتون صحافی
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
آئے آئے ون برما میں کام کرنے والی چند خواتین صحافیوں میں سے ایک ہیں، انہیں حال ہی میں امریکہ کے میسوری اسکو ل آ ف جر نلزم کی جانب سے صحافتی خدمات پر میسوری آنرمیڈل فار ڈسٹنگوش سروس2013 سے نوازا گیا، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
اپنے گھر میں آئے آئے ون فون کے ذریعے اپنی صحافتی اسٹوریز کیلئے لوگوں سے رابطے میں مصروف ہیں، ساٹھ سال کی عمر کے باوجود وہ انتہائی سرگرم صحافی ہیں۔
آئے آئے ون “میرے والد کو 1965ءمیںیو نے ون کے اقتدار میں آنے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی تھی، وہ ہم بہن بھائیوں کو خط لکھ کر ہدایت کرتے تھے کہ تعلیمی میدان میں محنت کرو، انھوں نے مجھے کہا تھا کہ ہمیشہ صحت مند رہنا”۔
ان کے والد سین وین ایک معروف صحافی تھے، جو برما میں پریس کی آزادی کیلئے سرگرم تھے، ان کی ہی جاپانی طالبعلموں کی کہانی سے متاثر ہوکر آئے آئے ون اسکول میں پوری لگن سے تعلیم حاصل کی۔
آئے آئے ون “میرے والد کہتے تھے کہ جاپانی بچے اپنے اسکول کا سبق رات گئے تک یاد کرتے تھے، کیونکہ وہ اپنے ملک کو دیگر ممالک کے برابر لانا چاہتے تھے، مجھے یہ خیال بہت پسند آیا، یہی وجہ ہے کہ میں اپنی استعداد سے دوگنا زیادہ محنت کی”۔
انکے والد کو تین بار جیل جانا پڑا، جبکہ انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت بھی نہیں تھی، تاہم صحافت آئے آئے ون کے خون میں شامل ہے۔
آئے آئے ون “میں اس وقت کافی چھوٹی تھی جب میں نے جنوبی ایران کی شکت اور مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے بارے میں پڑھا، میں مختلف مضامین کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کرلیتی تھی، مجھے بچپن سے ہی سیاست میں دلچسپی ہے، اور میں ہمیشہ سے اپنے والد جیسا ہی بننا چاہتی تھی”۔
شروع میں تو ان کے والد نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
آئے آئے ون “میرے والد نے اجازت نہیں دی کیونکہ یہ بہت خطرناک کام ہے، مگر جب انھوں نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کا کہا، تو میں نے ان کیلئے نیوز اسٹوریز لکھیں، اس طرح مجھے صحافتی میدان میں قدم رکھنے کیلئے والد کی اجازت لینے میں دس برس لگے”۔
آئے آئے ون نے برما کے اندر امریکی خبررساں ادارے کے نمائندے کی حیثیت سے کام شروع کیا، اور بیس برس سے زائد عرصے تک برما میں پیش آنیوالے واقعات کی رپورٹنگ کی، جن میں 2007ءمیں بھکشوﺅں کا احتجاج، 2008ءکا نرگس طوفان اور 2011ءمیں سویلین حکومت کا قیام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وہ غیرملکی نیوز ایجنسی سے تعلق کے باعث حکومتی واچ لسٹ میں بھی شامل رہ چکی ہیں۔
آئے آئے ون “ہمیں مضامین شائع ہونے کے بعد فوجی انٹیلی جنس سے دھمکیاں ملتی تھیں، مگر میں صرف صحافتی اصولوں پر عمل کرتی تھی، میں لکھنے کے بعد نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہتی تھی، میرے شوہر مجھ سے اکثر پوچھتے تھے کہ گرفتاری کے بعد میں کیا کھانا پسند کروں گی”۔
2007ءمیں انھوں نے فوجی حکومت کیخلاف بھکشوﺅں کے احتجاج کی کوریج کی، جس کے دوران انہیں فوجیوں کی فائرنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں انہیں امریکہ کے میسوری اسکول آف جر نلزم کی جانب سے صحافتی خدمات پر اعزاز سے بھی نواز گیا۔
آئے آئے ون “جمہوری حکومت بھی میڈیا کی نگرانی کو پسند نہیں کرتی، مگر میڈیا اور حکومت ملکر عوام کیلئے کافی کچھ اچھا کرسکتے ہیں، جب میڈیا کرپشن کے بارے میں لکھتا ہے تو حکومت کو اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع ملتاہے”۔
30 تیس سالہ نئین نئین نائنگ ایک برمی اخبار سیون ڈے نیوزکی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں، ان کیلئے آئے آئے ون ایک قابل تقلید شخصیت ہیں۔
نئین نئین نائنگ “تمام سنیئر صحافیوں کے مقابلے میں ان کے سوالات زیادہ تندو تیز ہوتے ہیں، ان کا انداز مختلف ہے اور وہ اسمارٹ سوالات پوچھتی ہیں۔ میں سوالات پوچھنے کیلئے ان کی زبان سے بہت متاثر ہوں، وہ نوجوان خواتین صحافیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ مرد صحافیوں کیلئے بھی رول ماڈل ہیں”۔
اب آئے آئے ون اپنے والد کے کام کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
آئے آئے ون”میں ایسا کچھ کرنا چاہتی ہوں جو میرے والد کا مشن تھا، یعنی صحافتی آزادی اور پریس کونسل کا قیام، میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ میرے والد کا مشن اگلی نسل بھی آگے بڑھائے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |