Written by prs.adminDecember 12, 2013
A Test Case of Domestic Violence in Thailandتھائی لینڈ میں گھریلو تشدد
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ تھائی حکومت خواتین اور بچوں کو گھریلو تشدد سے بچانے کیلئے قوانین پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہوچکی ہے، حال ہی میں ایک بہتّرسالہ خاتون نے اپنی بیٹی کو گھریلو تشدد سے بچانے کیلئے اس کے شوہر کو قتل کرانے کیلئے اجرتی قاتل کی خدمات لینے کا اعتراف کیا، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
جیکرت پانیک پاٹیکم نے دو ہزار بارہ میں لندن اولمپکس میں تھائی لینڈ کی جانب سے شوٹنگ ایونٹ میں حصہ لیا، مگرجیکرت پانیک پاٹیکم کی شخصیت اس وقت سیاہ بادلوں کی زد میں ہے۔
72بہتّر سالہ سورانگ دوانگ چندانے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنے کھلاڑی داماد کو قتل کرنے کیلئے ایک مسلح شخص کی خدمات حاصل کیں۔
سورانگ دوانگ چندا”میں نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ میرا داماد میری بیٹی کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنارہا تھا، میں نے اسے کئی بار معاف کیا مگر حالات بہتر نہیں ہوئے، میں نہیں چاہتی کہ میری بچی مر جائے اس لئے میں نے قاتل کی خدمات حاصل کرلیں”۔
جیدیدچوویلے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قائم ایک ادارے وومن اینڈ مین پروگریسو فاﺅنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں، انکا کہنا ہے کہ یہ ماں جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔
جیدید”وہ جیکرت کومارنا نہیں چاہتی تھی مگر چھ یا سات سال سے اپنے اوپر پڑنے والے دباﺅ نے ایک ماں کو ایسا سوچنے پر مجبور کردیا، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جیکرت کومروانا نہیں چاہتی تھی، قانون میں ایسی مظلوم ماں کو کیسے انصاف مل سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی پر تشدد ہورہا ہے؟”
تھائی حکومت کے اندازے کے مطابق ہر سال تئیس ہزار خواتین و بچے گھریلو تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ماہیڈول یونیورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ اینڈ فیملی ڈیولپمنٹ کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ تیس فیصد خاندانوں میں تشدد کے واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔
تینتیس سالہ خاتون صوفاکسون بتارہی ہیں کہ انکے سابق محبوب نے ایک اور خاتون سے شادی کے بعد اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
صوفاکسون”وہ میرے دفتر میں اسلحہ لے آیا اور مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے اس سے تعلق قائم نہ کیا تو وہ مجھے قتل کردے گا، میں خوفزدہ ہوگئی اور کچھ عرصے بعد اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا، اور میرا سر دیوار پر دے مارا، وہ مجھے چاقو مارنا چاہتا تھا جس پر میں نے اپنی زندگی کی بھیک مانگ کر جان بچائی”۔
اس حملے کے بعدصوفاکسون نے تحفظ کیلئے ایک دوست کو فون کیا، جس نے اسے پہلے ہسپتال اور پھر پولیس کے پاس پہنچایا، تحقیق کے مطابق گھریلو تشدد ہر طبقے میں عام ہے۔جیمز لانگ ایک انسانی حقوق گروپ کے ڈائریکٹر ہیں، انکا کہنا ہے کہ تشدد کی وجوہات میں صنفی مساوات نہ ہونا اور مردانہ ہٹ دھرمی ہے۔
جیمز”مردوں میں تشدد کے اس رجحان کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ ہم انہیں یہی کچھ سیکھاتے ہیں، وہ خود کو خواتین پر غالب سمجھتے ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ وہ خواتین اور ان کے جسموں کے مالک ہیں، مرد خواتین کو بس تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بس”۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متوسط طبقے کی بیشتر خواتین کو طویل عرصے تک تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کچی بستیوں کی خواتین جیسے کلانگ ٹوئے جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد آواز تک بلند نہیں کرتیں،فادر مائر نے کچی بستیوں کے بچوں کیلئے تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کا ادارہ قائم کررکھا ہے، انکا کہنا ہے کہ ان علاقوں کا ایک اور اہم مسئلہ گھریلو تشدد ہے۔
فادر مائر”جسمانی تشدد کے واقعات ہوتے ہیں مگر اسے مسئلہ نہیں بنایا جاتا، بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ مرد اپنے بچوں اور بیویوں کی پروا بھی نہیں کرتے، وہ اپنے بچوںسے الگ ہوجاتے ہیں، اور معاملہ حل کرنے کی بجائے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔وہ انہیں خرچہ نہیں دیتے بلکہ جوا کھیل کر پیسہ ضائع کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں خواتین اپنے پیسے بچوں کی نگہداشت پر خرچ کرتی ہیں”۔
تھائی لینڈ نے دو ہزار سات میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل منظور کیا تھا، جس کے تحت ملزمان کو دو سو ڈالرز جرمانے اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، جبکہ حکومت کے زیرتحت چلنے والی ایمرجنسی ہاٹ لائن سروس بھی شروع کی گئی، تاہم جیدید کا کہنا ہے کہ بیشتر خواتین قوانین سے ہی لاعلم ہیں۔انکے بقول سب سے بڑا چیلنج مردوں کے روئیے میں تبدیلی لانا ہے۔
جیدید”میں موجودہ قوانین کے میکنزم اور مردوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کا خواہشمند ہوں، اس سے مسئلہ حل ہوسکے گا اور خواتین کا تحفظ ممکن ہوگا۔ اس سلسلے میں میکنزم کی بہت اہمیت ہے، گھریلو تشدد کے قوانین کے بارے میں خواتین کو آگاہ کرنا ہوگا، اس کے بعد ان کے تجربات سامنے لانا ہوں گے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے بات کرکے اپنے مسائل کا حل کرسکیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |