Written by prs.adminDecember 4, 2013
Thai Government Facing Serious Threat from the Streets: Political Scientistتھائی لینڈ مظاہروں کی زد میں
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
تھائی لینڈ آج کل احتجاجی مطاہروں کی زد میں ہے، اور وزیراعظم کو 2010ءکے بعد اب تک کے سب سے بڑے احتجاج کا سامنا ہے۔ یہ احتجاج حکومت کے مستعفی ہونے کیلئے ہورہا ہے اور مطاہرین نے کئی سرکاری عمارات پر قبضہ بھی کرلیا ہے۔اسی حوالے سے معروف تھائی سیاسی تجزیہ کار تھیٹنان پونگسدھیرک کا انٹرویو سنتے ہیں آج کی رپورٹ میں
تھیٹنان پونگسدھیرک “موجودہ صورتحال واقعی بہت تشویشناک اور واضھ ہے، کیونکہ یہ خبر ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، تو یہ واقعی سنگین صورتحال ہے۔ پانچ سال پہلے بھی ہم ایسے حالات دیکھ چکے ہیں، جب ائیرپورٹ کو بند کردیا گیا تھا، کیونکہ اس پر مظاہرین نے قبضہ کرکے حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس بار کوئی ائیرپورٹ بند کرنے کی کوشش تو نہیں کررہا، مگر مظاہرین حکومتی رٹ ختم کرکے حکومت کے خاتمے کی کوشش ضرور کررہے ہیں، حکومت اس کا جواب دینے کی کوشش کررہی ہے اور اس نے انٹرنل سیکورٹی ایکٹ کا دائرہ بینکاک کے بیشتر علاقوں تک پھیلا دیا ہے، اور اب ہم زیادہ اتنشار دیکھ رہے ہیں، مطاہرین کا احتجاج جاری ہے اور حکومتی کریک ڈاﺅن بھی، مگر میرے خیال میں ابھی صورتحال پر قابو پانا ناممکن ہے، ہمیں حالات کی بہتری کیلئے چند روز انتظار کرنا ہوگا”۔
سوال”جیسا آپ کہہ رہے ہیں کہ حالات زیادہ خراب ہورہے ہیں اور وزیراعظم ینگ لک استعفی نہ دینے کیلئے پرعزم ہیں، تو اب ان کی حکومت اس صورتحال سے بغیر کسی بڑی مشکل کے کیسے نکل سکتی ہے؟
تھیٹنان پونگسدھیرک “حکومت کے پاس آپشنز بہت کم ہیں کیونکہ مطاہرین نے اس صورتحال سے نکلنے کے بیشتر دروازے بند کردیئے ہیں، مستعفی ہونا ہی کافی نہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ تحلیل کرنے سے کچھ بہتری کا امکان ہے، تو میرے خیال میں حکومت کو احساس ہے کہ مستعفی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسکی پوزیشن کمزور ہے، اور نئے انتخابات کیلئے پارلیمنٹ تحلیل کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اپوزیشن 2006ءکی طرح انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت احتجاج کے سامنے پرعزم کھڑی ہے اور سخت ردعمل کا اظہار کررہی ہے، اسے سیکیورٹی قوانین کا موثر اطلاق کرنا پڑے گا جس سے ہمیں مزید لڑائی نطر آئے گی، مگر ایسا ہم پانچ برس پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور اس وقت بھی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اب میرے خیال میں ہم پانچ سال پہلے والا منطر اب دوبارہ دیکھنے والے ہیں، کیونکہ مظاہرین نے اسٹیبلشمنٹ کی کافی طاقتوں کو اپنی طرف کرلیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومتی ردعمل بہت زیادہ سخت ہوچکا ہے”۔
سوال”اب اسٹیبلیشمنٹ کی فورسز کی بات کررہے ہیں، کیا اس میں فوج بھی شامل ہے؟
تھیٹنان پونگسدھیرک “فوج، سنیئر بیوروکریسی، طبقہ امرائ، یعنی وہ افراد جنھیں انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، سب نے اپنی آواز بلند کررکھی ہے، اگرچہ وہ اقلیت میں ہیں مگر یہ اقلیت بہت طاقتور ہے، جنھیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت میں انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے، تو ہم دوبارہ اس تنازعات سے بھرے چکر میں پھنس گئے ہیں جس کا سامنا ہمیں گزشتہ دہائی میںتھاکسن حکومت میں کرنا پڑا تھا، میرا نہیں خیال اس طرح تھائی لینڈ آگے بڑھ سکے گا، مظاہرین کو توقع ہے کہ غیرپارلیمانی مداخلت سے حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو پھر ہم دوسری جانب سے احتجاجی مطاہرے دیکھٰں گے، یعنی حکومت کے حامی سرخ پوش تحریک کے کارکن سڑکوں پر نکل آئیں گے، جیسا ہم نے 2009ءاور 2010ءمیں دیکھا تھا”۔
سوال” ڈاکٹر تھیٹنن مظاہرین وزیراعظم ینگ لک کی حکومت کوتھاکسن دور کا ہی تسلسل قرار دیتے ہیں، حالانکہ سابق وزیراعظم تھاکسن شنا ورتراخودساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے ہیں، آپ کے خیال میں کس حد تک ان کی شخصیت کا سایہ ان کی بہن کی حکومت پر اثرانداز ہورہا ہے۔
تھیٹنان پونگسدھیرک “ان کی شخصیت کا بہت زیادہ اثر موجودہ حکومت پر ہے، وہ جلاوطنی میں رہ کر بھی اپنی بہن کی وزارت عظمیٰ کا حصہ بنے ہوئے ہیں، تو اس طرح سکے کے دونوں رخ تھائی لینڈ پر حکومت کررہے ہیں،ینگ لک ایک طرف اور تھاکسن سکے کا دوسرا رخ ہیں، مگر میرے خیال میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے تھائی لینڈ کوتھاکسن کے اثر سے آزاد ہوکر ابھرتے دیکھا ہے، تاہم متعدد افراد اتھاکسن کے مخالف ہیں، کیونکہ تھائی لینڈ تبدیل ہوا ہے اور بیشتر حلقے اکیسویں صدی میں پرانی اصلاحات کے خیال سے خوش نہیں، جبکہ اس خطے میں بادشاہ کو اقتداراعلیٰ حاصل ہے، تو اسی وجہ سے ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے،تھاکسن کے اقدامات پر لوگ بہت زیادہ مشتعل ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال میں ملوث ہے، مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تھاکسن نے وہ راستہ تبدیل کردیا ہے جس کے تھائی عوام عادی ہوچکے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |