Unwanted Babies غیر مطلو ب بچے

            پاکستان میں گذشتہ برس ایک ہزار سے زائد نومولود بچوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا۔اس افسوسناک رجحان کے بارے میں معروف فلاحی ادارے ایدھی فاﺅنڈیشن کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں زیادہ تر نومولود بچیاں تھیں۔ فاو_¿نڈیشن کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے اہم شہروں سے جمع کیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔ممتاز سماجی کارکن بلقیس ایدھی اس حوالے سے بتارہی ہیں،

            ایک طرف تو ایسا ظالمانہ رویہ فروغ پارہا ہے تو دوسری طرف نجی فلاحی تنظیمیں ایسے بچوں کی پرورش کرکے انہیں تعلیم وتربیت دے رہی ہیں۔اس حوالے سے ایک نجی فلاحی ادارہ SOS Children’s Villageبھی اہم کردار کررہا ہے۔الماس بٹ SOS Children’s Village لاہورکی ڈائریکٹر ہیں۔

            Society for the Protection of the Rights of the Child یاSPARCملک میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانونی معاونت فراہم کرنیوالا ادارہ ہے۔ سہیل ابڑو صوبہ سندھ میں اسکے پروگرام منیجر ہیں،انکا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کی پرورش حکومت کی ذمہ داری ہے، تاہم وسائل کی کمی کے سبب نجی فلاحی ادارے آگے آتے ہیں۔

            طفل کشی یا نومولود بچو ں کو قتل کرنے کے رجحان میں تیزی کی وجوہات مذہبی اقدار، خاندانی روایات اور معاشرتی خوف ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش نا صرف ایک قابل مذمت اور غیر قانونی فعل ہے بلکہ ناجائز تعلقات کی سزا موت تصور کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی معذوری یا غربت میں اضافہ بھی ایسے واقعات کے محرکات ثابت ہوتے ہیں۔تاہم جدید ٹیکنالوجی کا منفی استعمال اور مغربی تہذیب کے بد اثرات بھی اس بگاڑ میں اہم کردارادا کررہے ہیں۔ بلقیس ایدھی اس حوالے سے مزید بتارہی ہیں۔

            صوبہ سندھ میں صوبائی حکومت نے ایسے بچوں کی پرورش کیلئے ایک ریمانڈ ہوم بنایا ہے مگر وہ صرف کراچی میں ہے، اس لئے ان بچوں کی مشکلات میں کمی کا امکان نظر نہیںآتا۔Society for the Protection of the Rights of the Childکے سہیل ابڑو اس بارے میں بتارہے ہیں۔

            دوسری جانب فلاحی اداروں میں پرورش پانے والے ایسے بچوں کو نادرا کی سخت پالیسی کے باعث ب فارم اور شناختی کارڈکے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، SOS Village لاہورکی ڈائریکٹر الماس بٹ اس حوالے سے بتارہی ہیں۔

            ایدھی فاﺅنڈیشن کے مطابق صرف 15 فیصد بچے انکے نصب شدہ جھولوں پر ملتے ہیں۔صرف کراچی اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں لوگ اپنے زندہ بچے ان کے مراکز پر چھوڑ جاتے ہیں،جبکہ باقی معاشرتی خوف کی وجہ سے یہ ہمت نہیں کر پاتے۔ بالخصوص اندرونِ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لوگ ایسے بچوں کو خود ہی دفن کردیتے ہیں تاکہ کسی کو کان و کان خبر ہی نہ ہو۔بلقیس ایدھی کا کہنا ہے کہ سارا قصور والدین کی خراب پرورش کا ہے۔

            پاکستانی قوانین کے تحت کسی بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ دینے والے کو سات سال قیدکی سزا ہوسکتی ہے جبکہ خاموشی سے بچے کو دفن کردینے پر دو سال قید کی سزا ہے اورکسی بھی قتل کی سزا موت ہے،لیکن اتنے واقعات ظہور پذیر ہونے کے باوجود نومولود بچوں کے قتل کا مقدمہ کبھی کبھار ہی چلایا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *