(The Realities of Burmese Migrants in Thailand) تھائی لینڈ میں مقیم برمی تارکین وطن کی مشکلات
جنوبی تھائی لینڈ میں آج کل ایک فلم کی شوٹنگ جاری ہے، جس میں برمی تارکین وطن کی مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
Tong Kha Men نامی گاﺅں جنوبی تھائی لینڈ میں واقع ہے، اسے برمی تارکین وطن کا گاﺅں بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت یہاں ایک فلم کی شوٹنگ جاری ہے، جس میں بر می نوجوان تارکین وطن ورکرز کی تھائی لینڈ میں جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔
اس فلم کو معروف برمی مزاحیہ اداکار اور سابق سیاسی قیدی Zaganar تیار کررہے ہیں، جنھیں دو برس قبل برمی حکومت نے رہا کیا تھا۔ Zaganar برمی اداکاروں اور ہدایتکاروں سے فلم میں تعاون کی درخواست کررہے ہیں۔
(male) Zaganar “برمی عوام کو تھائی لینڈ میں مقیم برمی تارکین وطن اور ان کے بچوں کی حقیقی زندگی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، برمی لوگوں کو نہیں معلوم کہ تھائی علاقوںPhangna ، Mae Sot یا Chiang Mai میں کام کرنے والے ان کے ہم وطن کتنی مشکل اور جدوجہد سے بھری زندگی گزار رہے ہیں، انہیں ہر چیز میں مسائل کا سامنا ہے، اور ان کے بچوں کو تعلیمی سہولیات دستیاب نہیں”۔
اس فلم میں اداکار Ye Deight کو برما سے تھائی لینڈ آکر کام تلاش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس دوران اس کی ملاقات تارکین وطن کو پڑھانے والی خاتون Chit Thuwai سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھنے لگتی ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر Min Htin Ko Ko Gyi بھی برمی تارکین وطن کی زندگی کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
(male) Min Htin Ko Ko Gyi “تھائی لینڈ میں موجود برمی عوام کی صورتحال انتہائی بری ہے، مجھے اسکرپٹ پڑھ کر حقیقی صورتحال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا، تاہم مجھے توقع ہے کہ فلم کو دیکھ کر دنیا بھر میں موجود برمی افراد کو جنوبی تھائی لینڈ میں مقیم اپنے ہم وطنوں کی حقیقی حالت زار کا اندازہ ہوسکے گا”۔
لوگوں کا ہجوم فلمی عملے کو دیکھنے کیلئے جمع رہا، گاﺅں کے تمام گھر خالی ہوچکے ہیں اور بچے انتہائی جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے ہیں، ایک برمی ماں اپنی مشکل زندگی کا احوال بتارہی ہے۔
اس خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی آمدانی چھ سو امریکی ڈالر سے کم ہے، جو چھ افراد کے خاندان کے اخراجات کیلئے ناکافی ہے۔ اداکارہ Chit Thuwai اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہی ہیں۔
(female) Chit Thuwai “میں کس طرح ان کے مسائل حل کرسکتی ہوں؟ میں انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی، ہمارے برمی عوام تھائی لینڈ میں رہ کر کام کرتے ہیں، مگر انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں۔ یہی ان کا بنیادی مسئلہ ہے، کوئی بھی شخص ان کا تحفظ نہیں کرتا، میں انہیں طبی تعلیم دینا پسند کروں گی،میں ان کے بارے میں بہت فکرمند ہوں”۔
اس فلم کے ساتھ ایک این جی او Foundation for Educational and Development تعاون کررہی ہے۔ یہ این جی او 2004ءمیں آنے والے سونامی طوفان کے بعد تشکیل دی گئی تھی، جس کا مقصد تارکین وطن اور ان کے خاندانوں کو بنیادی طبی سہولیات اور تعلیم فراہم کرنا ہے۔Htoo Chit اس این جی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، انکا کہنا ہے کہ اس فلم کے ذریعے تارکین وطن ورکرز کی برادری کو درپیش مسائل کو دنیا کے سامنے لایا جاسکے گا۔
(male) Htoo Chit “میں برما ،تھائی لینڈ یا دنیا بھر میں کہیں بھی مقیم برمی افراد تک واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس کے علاوہ ہم تھائی لینڈمیں موجود تارکین وطن ورکرز کی صورتحال پر عوامی شعور بھی اجاگر کرنا چاہتے ہیں، اس سے ہمارے تعلیمی پروگرام میں مدد ملے گی، ہماری نئی نسل کو تعلیم کی ضرورت ہے”۔
جنوبی تھائی لینڈ میں اس وقت ایک لاکھ سے زائد برمی شہری قانونی یا غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، وہ ربڑ ، تعمیراتی یا ماہی گیری کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔
بندرگاہ پر برمی ورکرز ایک تھائی فشنگ جہاز سے سامان اٹھا رہے ہیں۔ تھائی لینڈ کی ماہی گیری کی صنعت کا انحصار برمی ورکرز پر ہے، جنھیں بہت کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر ورکرز غیرقانونی طور پر تھائی لینڈ آتے ہیں۔ Htoo Chit اس حوالے سے بتارہے ہیں۔
(male) Htoo Chit “کئی بار وہ کشتیوں پر کھلے سمندر میں جاتے ہیں اور کئی کئی ماہ وہاں رہتے ہیں، اس دوران انہیں تنخواہ بھی نہیں ملتی، اور اگر وہ کسی حادثے میں مرجائیں تو انکے گھروالوں کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا”۔
Htoo Chit کی این جی او برمی ورکرز کی زندگیوں کوطبی اور تعلیمی پروگرام کے ذریعے بہتر بنانا چاہتی ہے، اس این جی او کی منیجر Mallika Ketthaisong کا کہنا ہے کہ اس فلم کے ذریعے انہیں اپنا پیغام پھیلانے میں مدد ملے گی۔
(female) Mallika Ketthaisong “اس فلم کے ذریعے لوگوں کو پیغام سمجھانا آسان ہوگا، کیونکہ اس سے عام لوگ اصل حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔ برما مٰں بھی عوام کو معلوم نہیں کہ ان کے ہم وطن بیرون ملک کن حالات میں کام کرتے ہیں اور انہیں کتنی مشکل ہوتی ہے۔ لوگوں کو تھائی لینڈ آنے سے قبل یہاں موجود مشکلات کو سمجھنا ہوگا، کچھ افراد خوش قسمتی سے اچھی زندگی گزارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر بیشتر یہاں آکر مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں”۔