Sugar Crises چینی کا بحران
پاکستان میں چینی کا بحران ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر گیا ہے اور عام شہریوں کو چینی کے نرخوں میں تاریخی اضافے کا سامنا ہے۔حکومت پاکستان نے ملک میں چینی کی قیمتوں میں کمی لانے اور اس کی دستیابی ممکن بنانے کے لیے حکومت کے پاس موجود چینی کی مارکیٹ میں فوری دستیابی اور چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز جیسے بعض اقدامات کی منظوری دی ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے دس نومبر کوچینی کے بحران کے خاتمے کے لیے چار نکاتی حکمت عملی بتائی، جس میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے پاس موجود چینی کو مارکیٹ میں لانا اور بیرون ملک سے چینی کی فوری درآمد شامل ہے۔وزیراطلاعات نے بتایا کہ شوگر مل مالکان کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کارخانے چلائیں تا کہ ملک میں چینی کی دستیابی مزید بہتر ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سستی برداشت نہیں کی جائے گی۔دوسری جانب وزیرداخلہ رحمان ملک نے اس ممکنہ کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کو دو دن کی مہلت دے رہے ہیں جس کے بعد چھاپے مارے جائیں گے اور قانون کے مطابق گرفتاریاں ہوں گی۔تاہم مسلم لیگ ق کے رہنماءغوث بخش مہر جوکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت وپیداوار کے چیئرمین بھی ہیں،کا کہنا ہے کہ چینی کے معاملے میں لگتا ہے کہ کہیں بھی حکومتی رٹ قائم نہیں۔
اسی طرح حکومت سندھ نے ٹی سی پی سے70ہزار ٹن جبکہ پنجاب نے ایک لاکھ ٹن چینی خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسکے بعد سندھ میں چینی کی 71روپے فی کلو فروخت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ڈی سی اوز کو دی گئی ہے،جبکہ پنجاب میں 72 روپے فی کلوکے حساب سے چینی فروخت کی جائیگی۔واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کا بحران ایک برس سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس دوران حکومت کی جانب سے پہلی بار ٹھوس اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔مگر یوٹیلیٹی اسٹورز میں چینی کی قیمتوں میں اضافے سے حکومتی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،جبکہ ملک میں شوگر لابی کے نام سے مشہور اس طاقتور طبقے کے خلاف کارروائی بھی حکومت کے لیے آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ 81رکنی شوگر ملز ایسوسی ایشن میں70سے زائد افراد اراکین قومی اسمبلی یا انتہائی بااثر سیاسی رہنماءہیں۔
حکومتی نااہلی اور شوگر مافیا کی طاقت کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ ملک میں چینی کے نرخ تین برسوں کے دوران تین گنا بڑھے اور گزشتہ دس سے پندرہ دنوں کے دوران چینی کی قیمتیں100 روپے سے 150روپے فی کلو تک پہنچ گئیں ہیں،جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں فی کلوچینی 56روپے،بنگلہ دیش میں 68روپے اور سری لنکا میں 70روپے میںفروخت کی جارہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگی چینی پاکستان میں فروخت ہورہی ہے۔وفاقی وزارت خوراک وزراعت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے ایک برس کے دوران 66ارب روپے سے زائد کی چینی درآمد کی ہے، جبکہ پاکستان میں ملک میں طاقتور شوگر مافیا نے چینی کی قیمتوں میں ازخوداضافہ کرکے ایک ماہ کے دوران 16 سے18 ارب روپے کما لئے ہیں،اس دوران یومیہ60 کروڑ روپے تک کا منافع کمایا گیا۔اس صورتحال میں سرکاری مشینری کی بے بسی پر چینی اور چائے کے دلداہ عوام سخت مشتعل ہیں۔
وفاق اور صوبے ایک دوسرے کو جبکہ شوگر ملز ایسوسی ایشن وفاقی حکومت کو بحران کا ذمے دار ٹھہرارہی ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک و زراعت کے چیئرمین اور پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی جعفر اقبال وڑائچ اس بحران کا ذمہ دار صوبائی حکومتوں کو قراردیتے ہیں۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ انہوں نے چینی کی کم پیداوار کے پیش نظر پے در پے چار خطوط کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کی توجہ باہر سے چینی منگوانے کی طرف مبذول کرائی تھی۔
اسی طرح پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاویدکیانی بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے اور بحران کی ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ اگر ٹی سی پی ہماری سفارشات کے مطابق چینی درآمد کر لیتی تو ملک میں بحران نہ پیداہوتا،تاہم انکا کہنا تھا کہ عیدالاضحیٰ کے بعد پنجاب میں 25 نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع ہوجائیگی، جسکے بعد چینی کی قیمت کم ہوکر 70 روپے فی کلو تک آجائیگی۔جاوید کیانی نے کہا کہ ہم پر چینی کی قیمتیں بڑھانے اور بحران پیدا کرنے کے الزامات درست نہیں، ہم نے تو اکتوبر میں ہی ٹریڈنگ کارپوریشن کو کہہ دیا تھا کہ وہ چینی کی درآمد جاری رکھے اور مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ چینی لانے کیلئے ٹینڈرجاری کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چینی سمیت عام ضرورت کی اشیاءجس ملک سے بھی سستے داموں اور کم وقت میں ممکن ہوں، فوری طور پر درآمد کی جائیں۔ اس سلسلے میں نجی شعبے کی مدد لی جائے جو زیادہ تیزی سے منڈی میں ضروری اشیاءکی فراہمی یقینی بنا سکتا ہے، مگر منافع کی جائز حد پار کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہ دی جائے،کیونکہ عوام کے جذبات اب بے قابو ہونے لگے ہیں۔سندھ کی کئی شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ شروع ہونے کی اطلاعات حوصلہ افزاءہیں تاہم دیگر کارخانوں میں بھی کرشنگ کا فوری آغاز کرانے اور گنے کے کاشتکاروں کو معاوضے کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply