Problems of working women ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔خواتین کے لیے گھر سے باہراپنی پیشہ ورانہ معا شی ذمہ داریاںادا کرنا عام طو ر پر حوصلہ افزا ردعمل حاصل نہیں کر پاتا۔کام کا ج کی جگہیں عموماً مرد کا میدان سمجھی جاتی ہیں، جبکہ شہرہویا دیہات ملازم پیشہ خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور عموماً ان کے بارے میں غلط افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔تاہم یہ سوچ اب تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور معاشی دائرے کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے تمام سماجی دائروں میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ معاشرے کی ترقی میں ان کے غیر رسمی کردار کو تسلیم کیے جانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔مسز روبی سلیم ایک میڈیا ادارے میں بزنس ڈویلپمنٹ منیجر ہیں۔
کئی بار خواتین شوقیہ طور پر ملازمت کرلیتی ہیں، تاہم بعد میں وہ انکی ضرورت بن جاتی ہے۔ مسزامتل کریم ایسی ہی ایک استاد ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین ایک اور الجھن کا شکا ر ہیں ، وہ ہمیشہ یہ محسو س کرتی ہیں کہ گھر ان کا اصل میدا ن کارہے جسے انہیں ہر طرح کے حالات میں سہارا دینا ہے۔ خواتین عام طور پرگھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور نوکری کا انتخاب خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ایک نرس مسز غزالہ اقبال اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔
خواتین اپنے خاندان اور گھر کی ذمہ داریوں کے لیے ناکافی وقت دینے پر اپنے آپ کو قصووار تصور کرتی ہیں۔اس دہری ذمہ داری کے سبب ان پر دوگنا بوجھ پڑتا ہے اور نتیجتا ً انہیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔آصف نامی اس شخص کی بیوی ملازمت کرتی ہے، آصف کے خیال میں بیوی کی ملازمت سے گھر کا پورا نظام تہہ وبالا ہوکر رہ جاتا ہے،تاہم انکا یہ بھی ماننا ہے کہ آج کے دور میں مہنگائی اتنی ہے کہ خواتین کی ملازمت کے بغیر گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق مختلف عالمی اور ملکی قوانین کی موجودگی کے باوجود خواتین کے ساتھ ان کی معاشی زندگی میں بھی پرتشدد رویے روا رکھے جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی خواتین ،مردوں کے مقابلے میں کم و بیش 40 فیصد کم اجرت پر ملازمت کر رہی ہیں جبکہ ملازمت پیشہ خواتین سے مختلف حیلوں بہانوں سے مردوں کے مقابلے میں 12 سے 16 گھنٹے یومیہ مزدوری کرائی جاتی ہے۔ملازمت پیشہ خواتین میں سے بیشتر کو دفتری اوقات میں اپنے مرد افسران اورہم منصب مردوں کی جانب سے جنسی طورپر ہراساں کئے جانے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس حوالے سے حکومت نے گزشتہ سال ایک قانون منظور کیا تھا۔جی ایچ ابڑوسندھ ہائیکورٹ کے وکیل ہیں، وہ اس بارے میں بتارہے ہیں۔
اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کیلئے مختص نشستوں پر اکثر وبیشتر مردحضرات کا قبضہ بھی ان کیلئے مشکلات پیدا کرنیکا سبب بنتا ہے، جبکہ بس ڈرائیورز عموماً خواتین کے اترنے یا چڑھنے کے دوران بسوں کو روکنا پسند نہیں کرتے، جس سے کئی بار حادثات بھی ہوجاتے ہیں۔ مسزامتل کریم کے خیال میں مناسب حکمت عملی سے خواتین ان مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔
تاہم ان سب مسائل کے باوجود معاشرے میں خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے خوشگوارتبدیلی آرہی ہے۔ ایک بیوٹیشن مسز عظمیٰ اپنی بیٹیوں کوبھی عملی زندگی میں لانے کیلئے پرعزم ہیں۔
خواتین زیادہ تر ان کا مو ں کو ترجیح دیتی ہیں جن میں ذہنی اور فکری خدما ت درکا ر ہو تی ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ، بینکنگ اورخدمات مہیا کرنے والی تنظیموں میں خواتین کی دلچسپی کا فی ہوتی ہے ۔جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خواتین کی مخصو ص مہارتوں کو استعمال میں لا نا زیادہ اہم ہے۔اسی طر ح قومی زندگی کے ایسے شعبوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے جہاں خواتین مو¿ثر کردار ادا کرسکتی ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کا ر لا سکتی ہیں۔
سماجی حلقے قانون سازی ہی کو عورت کو درپیش مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیںحالانکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ محض قانون سازی کوئی مثالی حل نہیں ہے۔مناسب تبدیلی کے لیے معاشرتی اور تعلیمی میدان میں اقدامات کی ضرورت زیادہ ہے۔ایڈووکیٹ جی ایچ ابڑوکے خیال میں خواتین کو اپنے مسائل کے حل کیلئے پولیس کے پاس لازمی جانا چاہئے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply