Price and Inflation بڑھتی ہوئی مہنگائی
ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے ،جس سے ملک میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور مہنگائی کے سمندر میں ایک ایسا نیااور شدید طوفان اٹھنا یقینی ہوگیا ہے جو عوام کی رہی سہی قوتِ خرید بھی ختم کردے گا۔واضح رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رواں سال چھ بار اضافہ کیا جاچکا ہے، جبکہ گزشتہ دوسال کے دوران پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً سوفیصد اضافہ ہوچکا ہے۔موجودہ حکومت کے دورمیں بیشتر وقت عوام پر کسی نہ کسی شے کی گرانی کا بم گرایا جاتا رہا ہے۔ اس عرصے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سرکاری تحویل اور اجارہ داری کی تمام اشیاءاور خدمات کی قیمتوں میں اوسطاً دوسوفیصد اضافہ ہوا ہے، اسی حساب سے نجی اداروں نے بھی قیمتیں بڑھائیں۔گزشتہ تین ماہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آٹا14فیصد،دال چناساڑھے12 فیصد، دال مونگ 21 فیصد، چینی17 فیصد، دودھ10 فیصد، گھی9فیصد، سرخ مرچ پاﺅڈر21فیصد اور نمک 6 فیصد مہنگا ہوگیا ہے،جبکہ سبزیوں کی قیمت میں400فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے جولائی 2011ءتک ہرماہ بجلی کی قیمتوں میں دوفیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے،جبکہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت بھی قیمتوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے۔ واپڈا کی جانب سے نرخ ایک روپے 3 پیسے فی یونٹ سے 16 پیسے کے حساب سے بڑھ کر 1 روپے 18پیسے کر دیئے گئے ہیں۔اس کے علاہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی درخواستوں کی منظوری آئندہ سال کے اوائل میں دیئے جانیکا امکان ہے،جسکے بعد گیس سے حاصل ہونیوالی بجلی بھی مزید مہنگی ہوجائیگی۔نیپرا کے ترجمان سفیر حسین شاہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں فی الحال پانی سے پیداہونیوالی سستی ہائیڈل بجلی کی بجائے ایندھن یعنی فرنس آئل، گیس یا کوئلے سے بجلی کی پیداوار زیادہ ہے، جسکی وجہ سے عالمی منڈی میں پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کا براہ راست اثر مقامی سطح پر بجلی کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہائیڈل بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے تو قیمتوں میں خودکارطور پر کمی آجائیگی۔
پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ اضافے کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں آٹا، گھی،چینی، چاول ، دالوں اور سبزیوں سمیت کھانے پینے کی تقریباً 20 سے زائد اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو گیاہے۔ دودھ جو پہلے 54اور56روپے کلو ملتا تھا اب58 اور60روپے کلو ہوگیا ہے۔تیل کی قیمتوں میں اضافے سے جی ایس ٹی کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوگاجبکہ محکمہ ریلوے بھی کرایوں میں اضافے کیلئے پرتول رہا ہے۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہمارے پڑوس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی جا رہی ہیں۔عبدالسمیع خان، پیٹرولیم اینڈ سی این جی ڈیلرزایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ہیں۔ وہ پیٹرولیم نرخوں میں اضافے کے اثرات کے بارے میں بتارہے ہیں۔
صرف پٹرول، بجلی یا گیس ہی کیا، حکومت تو اب تک کسی چیز کو مہنگا ہونے سے نہیں بچاسکی ہے۔ جسکی مثال چینی کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہے۔ اس وقت ملک بھر میں چینی95 سے 98روپے فی کلومیں فروخت کی جارہی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے اسکی قیمت کنٹرول کرنیکی ٹھوس کوشش کرنیکی بجائے عوام کو اسکا استعمال ترک کرنیکا مشورہ دیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ماہ ستمبر میں جاری ہونیوالی ایک رپورٹ جو کہ ملک میں سیلاب آنے سے قبل ہی مکمل ہوگئی تھی، میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر 49فیصد افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیںاورمجموعی طور پر ملک کے 53اضلاع میں افراد کو خوراک تک ضرورت کے مطابق رسائی حاصل نہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ورلڈفوڈ پروگرام کے مطابق سیلاب کے باعث پاکستان میں خوراک تک معقول رسائی نہ رکھنے والے افراد کی تعداد ملک کی کل آبادی کے 70 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
پچھلے سال تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5.5 فی صد اور بے روزگارافراد کی تعداد 29 لاکھ تھی۔ یہاں ہر چوتھا شخص غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاءمیں غربت کے حوالے سے پانچویں اور دنیا میں101 ویں نمبر پر ہے،جبکہ عالمی بینک کی ہی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی خراب اقتصادی صورتحال، سیاسی عدم استحکام اور تیزی سے بڑھتی ہوئی کرپشن کے باعث پاکستان میں کاروبار کرنا بہت ہی مشکل اور مہنگا ہے۔اسی طرح ایک ٹی وی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکاری کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے حکومت پاکستان ہر اس حکم پر عمل کرنے پر مجبور ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے دباﺅ پر آئندہ چند روز میں پارلیمنٹ میں ریفارمز جنرل سیلزٹیکس کا بل لایا جارہا ہے،جس کی منظوری کے بعد پاکستان کے ہر خریدار کو ہر چیز پر جی ایس ٹی دینا ہوگا۔ اس ٹیکس کے نتیجے میں پاکستان میں 15 سے 20 فیصد مہنگائی بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ آئندہ چند دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کےلئے آئل ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ اداروں کو خفیہ طور پر پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار دے دیا گیا ہے ۔
انسانی ترقی و خوشحالی کا جائزہ لینے والے انتہائی معتبر عالمی ادارے لیکٹم انسٹی ٹیوٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں ایک سو دس ممالک کا جائزہ پیش کیا ہے، اس میں پاکستان 109 نمبر پر ہے۔ یعنی صرف ایک ملک زمبابوے ہم سے نیچے ہے۔ ایتھوپیا، یوگنڈا، روانڈا، تنزانیہ، سوڈان، بنگلہ دیش، سری لنکا، ویت نام، پانامہ، برازیل سب ہم سے اوپر ہیں۔
غذائی قلت اور غربت کی ان رپورٹس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے حوالے سے آنیوالی خبروں کو باہم ملایا جائے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہونے لگتا ہے۔اسٹیٹ بینک نے خودتسلیم کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں مہنگائی کی شرح 22 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔اجناس کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ اس حوالے سے مارکیٹ کمیٹی کراچی کے وائس چیئر مین آصف احمد کا کہنا ہے کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی جانب سے قیمتوں کو چیک نہ کرنے کے باعث خوردہ مارکیٹ میں سبزیاں200فیصد سے زائد قیمت پر فروخت ہورہی ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر عوامی احتجاج کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومتی اتحادی بھی آواز بلند کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔عوامی حلقے روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے شدید مشتعل ہےں۔
مگردوسری طرف حکومتی اخراجات میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی، ایک خبر کے مطابق صرف وزیر اعظم ہاو¿س پر گزشتہ اڑھائی برس کے دوران 7 کروڑ 40 لاکھ روپیہ خرچ کیاجا چکا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفاع، سبسڈیز ، قرضوں پر سود اور پنشنرز کی ادائیگی کے بعد حکومت کے پاس کوئی پیسہ باقی نہیں بچتا، پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی شاہی اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ تو اسکا جواب ہے عالمی اداروں سے سخت ترین شرائط پر قرضے لیکر عوام کو زیادہ سے زیادہ کچلا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کسی وجہ سے واپس نہیں بھی لیا جاسکتا توصدر یا وزیراعظم ذاتی طور پر ملک بھر میں اجناس کی قیمتوں کو یکساں رکھنے کیلئے خصوصی توجہ دیں،کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے اداروں کو موثر بناکر سوئی سے لیکر گاڑی اور اشیائے خورونوش کے نرخ مقررکئے جائیں اور انکی خلاف ورزی کی صورت میں سخت ترین سزائیں مقرر کی جائیں۔اس حوالے سے پرائس کنٹرول اتھارٹی سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس طلب کی جائے اور وزیراعظم انکا باقاعدگی سے جائزہ لیں، تو امکان ہے کہ کچھ عرصے بعد مہنگائی کنٹرول میں آنا شروع ہوجائیگی۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ لوگ خوشحال اور مطمئن ہوں گے تو سرکاری خزانے میں پیسے آئیں گے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply