Pre Budget 2011 آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ
آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ چارجون کو پیش کئے جانیکا امکان ہے، جسکی آمد سے قبل ہی عام لوگوں کا خیال ہے کہ اس سال بجٹ پھر مہنگائی کا طوفان لے کر آئیگا۔تاجروں اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک ٹیکس سے مستثنیٰ شعبوں اور افراد کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائیگا، اس وقت تک صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔کراچی ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدر محمد سعید شفیق کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کو دبانے کی بجائے حد سے زائد آمدنی والے ہرشخص سے ٹیکس لیا جانا چاہئے۔
ملک میں زرعی شعبہ، اسٹاک ایکسچینج اور خدمات کے شعبوں میں بیشتر پیشے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، جبکہ دوسری جانب ایک چھوٹے دکاندار کیلئے ٹیکس نمبر ہونا لازمی ہے۔ ایوان ہائے صنعت و تجارت پشاورکے صدر عثمان بلور اس حوالے سے بتارہے ہیں۔
بیشتر تاجر اور صنعتکار زرعی شعبے اور جائیدادوں کی منتقلی وغیرہ کو محصولات کے دائرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کوئٹہ ایوان ہائے صنعت و تجارت کے نائب صدر رفوگل بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔
کراچی ایوان ہائے صنعت وتجارت کے صدر محمد سعید شفیق کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کا انحصار صنعتوں پر ہے، مگر اسمگل شدہ مال کے باعث مقامی صنعتیں تباہی کا شکار ہورہی ہیں،اس حوالے سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدہ معاشی بہتری کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی ہدایت پر تیارکردہ بجٹ آنے کے بعد مہنگائی میں اضافے کا امکان تو بہرحال ہے اور اس کا بوجھ عام صارفین پر ہی پڑے گا۔پشاور ایوان ہائے صنعت وتجارت کے صدر عثمان بلور کا کہنا ہے کہ پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پرٹیکس کی شرح بڑھانے سے کوئی بہتری نہیں آئیگی، اس کیلئے روزانہ لاکھوں روپے کمانے والے ڈاکٹروں اور وکلاءسمیت دیگر شعبوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا۔
صدرکراچی ایوان ہائے صنعت وتجارت کے مطابق ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں کرپشن کے ذریعے ضائع ہونیوالے اربوں روپے حکومت کے پاس آئیں تو اسے اپنے اخراجات پورے کرنے میں بہت آسانی پیدا ہوجائیگی۔ وہ اس حوالے سے تجاویز پیش کررہے ہیں۔
عام افرادکا کہنا ہے کہ سالانہ بجٹ اپنی افادیت کھو چکا ہے کیو نکہ اب ہر ماہ کسی نہ کسی شکل میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہرسال حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ بہترین بجٹ ثابت ہوگااور اس سے مالی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی، مگر معلوم ہوتا ہے کہ عام آدمی ،تاجراور صنعتکار اس بار حکومتی دعووں پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply