Polluted Water in Thar تھر میں آلودہ پانی
ہوا، خوراک اور پانی تین ایسی بنیادی عنصر ہیں، جن کے بغیر کسی مقام پر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں،صحرائی علاقوں میں عموماً خوراک اور پانی کی شدید قلت رہتی ہے۔ایسی ہی صورتحال کا سامنا بائیس ہزاراسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلے صحرائی علاقے تھرکے چودہ لاکھ رہائشیوں اور پچاس لاکھ مویشیوں کو بھی کرنا پڑرہا ہے۔ایک غیرسرکاری فلاحی تنظیم بانہہ بیلی کے کوآرڈنیٹر کرشن شرماتھرپارکر میں پانی کی قلت کے اسباب بتارہے ہیں۔
بَھارُومل آمرانی ایک این جی اوSociety for Conservation & Protection of Environment (SCOPE)کے کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر ہیں۔انکا کہنا ہے کہ تھرپارکر طبعی لحاظ سے نوحصوں میں تقسیم ہے، ہرجگہ زیرزمین پانی کی سطح مختلف ہے، اس حوالے سے ہرعلاقے کی سروے رپورٹ بننی چاہئے،تاکہ وہاں موجود پانی میں نمکیات اور دیگر مضرصحت اجزاءکے بارے میں معلوم ہوسکے۔
تھرمیں بارشیں کم ہونےکی وجہ سے قحظ سالی عام ہے،جبکہ زیرزمین پانی کے حوالے سے تین مسائل سامنے آرہے ہیں۔ایک غیرسرکاری فلاحی تنظیم Association for Water, Applied Education & Renewable Energy (AWARE)کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر راھموںاس بارے میں بتارہے ہیں۔
صحرائے تھر میں 2003ءمیں AWARE، پی سی ایس آئی آر کراچی اور جامشورو یونیورسٹی کے Centre of Excellence in Analytical Chemistryکی مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پورے تھرپارکر میں زیرزمین پانی کا89 فیصدحصہ عالمی ادارہ صحت کے مقرر کر دہ پیما نے کے مطابق انسان کے قابل استعمال نہیں۔اس پانی کے استعمال سے ہڈیوں سے کیلشیم ختم ہو جاتا ہے جبکہ کینسر سمیت جلدی امراض بھی جنم لیتے ہیں۔اسی طرح 2008اور09ءمیں ڈاﺅمیڈیکل یونیورسٹی کےساتھ ملکر AWAREنے ایک سروے کیا، جس میں پانی میں شامل فلورائیڈ اور کلورسس کے انسانی صحت پر اثرات کا جائزہ لیا گیا، اس حوالے سے ایک کانفرنس بھی کراچی میں ہوئی، تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس پانی کے استعمال سے گردوں، پیٹ کے امراض، سرمیں درد رہنا اور نفسیاتی مسائل جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔علی اکبر راھموںکا کہنا ہے کہ پانی میں fluorideکی مقدار زیادہ ہونیکی وجہ سے تھر کے ایک گاﺅں میں گزشتہ دوماہ کے دوران پانچ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ تھرمیں ناقص پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شرح میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے،حالانکہ یہاں پانی صاف کرنے کیلئے آر او پلانٹس لگائے جارہے ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے لگائے جانیوالے پلانٹس اس وقت مفید ثابت ہوں گے، جب تھرکے ہرعلاقے میں پائپ لائن کے ذریعے گھروں تک پانی پہنچ رہا ہوں، جبکہ اس وقت صرف مٹھی، چھاچھرو اور ڈِیپلومیں ہی پائپ لائن کے ذریعے مہینے میں دودفعہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر مشتاق تھرپارکر میں ای ڈی او ہیں، وہ پائپ لائن کے ذریعے پانی کی سپلائی پر حکومتی موقف بتارہے ہیں۔
SCOPEسے تعلق رکھنے والے بَھارُومل آمرانیکا کہنا ہے کہ حکومت بہت مہنگے پلانٹس لگارہی ہے، جبکہ این جی اوز کے تحت وہی پلانٹس بہت کم پیسے خرچ کرکے لگائے جارہے ہیں۔انکی تجویز ہے کہ حکومت چھوٹے علاقوں کی بجائے گنجان آبادی میں یہ پلانٹس لگائے، تاہم اس سے پہلے زیرزمین پانی کا ٹیسٹ بھی ہونا چاہئے۔
اس کے برعکس آراو پلانٹس پر ای ڈی او تھرپارکر ڈاکٹر مشتاق کا موقف بالکل مختلف ہے۔
غیرسرکاری فلاحی تنظیم بانھہ بیلی کے تحت تھر میں پانی کی قلت پرقابو پانے کیلئے ایک پروگرام پرکام ہورہا ہے، جسکے مثبت اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔بانھہ بیلی کے کوآرڈنیٹر کرشن شرمااس بارے میں بتارہے ہیں۔
این جی اوAWAREکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر راھموکا کہنا ہے کہ شمسی یا ونڈ ٹربائن سے پیداہونیوالی توانائی سے زیرزمین پانی میں نمکیات کو الگ کرکے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
ای ڈی او تھرپارکر ڈاکٹر مشتاق کا کہنا ہے کہ یہاں مضرصحت پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے طویل عرصہ اور بہت زیادہ فنڈز درکار ہے، اسی لئے شہریوں کو دستیاب پانی ابال کر استعمال کرنا چاہئے، اس سے صورتحال میں بہتری کی امید ہے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 |
Leave a Reply