Police torture پولیس کا ملزمان پر تشدد
گزشتہ دنوں ملک بھرسے پولیس کی جانب سے تشددکے مختلف واقعات سامنے آئے ہیں،اسی پولیس گردی کے مختلف پہلوﺅںپرمبنی سنتے ہیںپی پی آئی نیوزکا خصوصی فیچر
3مارچ 2010ءکو چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے ماڈل پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے چاول کے ٹرک پرڈکیتی اور دیگر مقدمات میں ملوث 6 ملزمان کوتھانے کے سامنے واقع گراو¿نڈمیں سرعام تشددکانشانہ بنایا۔میڈیا میں یہ خبرآتے ہی پولیس حکام نے سرعام تشدد کرنے والے 5 پولیس اہل کاروں اور 3 ملزمان کو جیل بھجوا دیا جبکہ ڈی ایس پی کو معطل کردیا گیا۔
یہ واقعہ سمندرمیں اٹھنے والے طوفان کی پہلی لہرثابت ہوا اور اسکے بعد مسلسل اس قسم کے واقعات سامنے آنے لگے۔ لاہور، حافظ آباد، فیصل آباد، پنڈی بھٹیاں، پشاور، سمندری ،منڈی بہاﺅالدین، اور رتو ڈیروسمیت مختلف علاقوں سے وڈیوفوٹیجز سامنے آئیں، جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔مگرکیا یہ واقعات واقعی پہلی بار ہوئے تھے یا ان میں ایسی کیا بات تھی جو پولیس تشدد عوامی حلقوں میں زیربحث آنے لگا؟ درحقیقت پاکستان میں ملزمان سے جرم قبول کروانے کا سب سے مقبول فارمولا ہے چھترول۔ملزم جرم قبول نہ کرے توزیادہ سے زیادہ چھترول اور چھترول کی تاب نہ لا کر ملزم جرم قبول کرلے تو اسے پولیس کی کامیابی تصورکرلیا جاتا ہے۔ممتاز قانون دان ،سابق وفاقی وزیر قانون وپارلیمانی اموراور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چئیرپرسن سید اقبال حیدرکا کہنا ہے کہ ملزمان پرپولیس کا تشددکسی لحاظ سے جائزنہیں۔
تھانوں میں پولیس گردی کے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں،اس بات کا اعتراف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے بھی کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ عدالتوں میں سب سے زیادہ شکایتیں پولیس کیخلاف آتی ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس کی جانب سے ملزمان پر تشدد کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں،تاہم ملک میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصے کے دوران صرف 13پولیس اہلکاروں کو تشدد کے جرم میں محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ۔وزارت داخلہ کے کرائسز مینجمنٹ سیل کو بھیجی جانیوالی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پنجاب اور سندھ کے تھانوں میں قائم شکایات سیل کی رپورٹ پر 13 اہلکاروں کو شوکاز نوٹس اور متنبہ کرنے کی سزائیں دی گئی ہیں جبکہ اس عرصے کے دوران بلوچستان اور صوبہ سرحد سے پولیس تشدد کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔پاکستان پینل کوڈ اور کریمنل پروسیجرکوڈ میں پولیس تشدد کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہے؟ ممتازسماجی کارکن اور انسانی حقوق کے سرگرم وکیل ضیاءاعوان کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق پولیس کو جسمانی تشددکرنیکا حق حاصل نہیں۔
وزارت داخلہ کو بھیجی جانیوالی ایک اور رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال یعنی فروری 2009ءسے فروری 2010ءکے دوران 34شہری پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے،جن میں سے پنجاب میں 18، سندھ میں 12 جبکہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں دو، دوواقعات پیش آئے۔
اسی طرح1999ءسے 2009ءیعنی دس سال کے دوران تھانوں میں تشدد کے 10421مقدمات درج ہوئے،جن میں پنجاب 6250 مقدمات کیساتھ سب سے آگے ہے، جبکہ سندھ میں 3271،صوبہ سرحدمیں711 اور بلوچستان میں179مقدمات درج ہوئے۔ یقیناً متعددایسے واقعات بھی ہوئے ہونگے، جنکے مقدمات درج نہیں کروائے گئے۔
پنجاب کے مختلف علاقوں میں پولیس کی جانب سے عوام پر سرعام تشددکا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے بھی ازخودنوٹس لیا۔اس مقدمے کی سماعت ابھی جاری ہے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے مذکورہ واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی گئی ہے۔تھانہ کلچر کی اصلاح کس طرح ممکن ہے؟ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اقبال حیدرکا کہنا ہے کہ حکومت پولیس کوواضح الفاظ میں ہدایات دے کہ تشددکے واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔
آئین پاکستان میںاحترام انسانیت کے بارے میں قانون موجود ہے،تاہم اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت پولیس اہلکاروں کے احتساب اور قانون پر عملدرآمد پر توجہ دے، ورنہ محض عدالتوں یا حکومتوں کے ازخودنوٹس، مستقبل میں احترام انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے والے ایسے واقعات نہیں روک سکیں گے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply