Written by prs.adminMay 9, 2012
Pakistan’s energy crisis leaves millions jobless پاکستان میں توانائی بحران سے لاکھوں افراد بے روزگار
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Business . General . Topic Article
پاکستان بھر میں دو لاکھ سے زائد کارخانے بند ہوچکے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، جس کی بڑی وجہ ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے۔
ہزاروں عارضی مزدور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سامنے احتجاج کررہے ہیں، وہ نعرے بازی کررہے ہیں، اورٹائر نذر آتش کرکے گورنر ہاﺅس کی جانب جانے والی سڑک کو بند کررہے ہیں۔ ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ تب تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک صنعتوں کو گیس کی فراہمی بحال نہیں ہوجاتی۔
35 سالہ فرحان بھٹو ایک سو بیس کلومیٹر دور یعنی فیصل آباد سے یہاں احتجاج میں شرکت کیلئے آئے ہیں، فیصل آباد جو ایک زمانے میں ٹیکسٹائل مصنوعات کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا، اب اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے طویل بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث یہاں کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
فرحان بھٹو(male) “میں ہر ماہ اٹھارہ ہزار روپے کما لیتا تھا اور اوور ٹائم کی آمدنی الگ تھی، مگر اب ہماری آمدنی کے ذرائع ختم ہوکر رہ گئے اور ہم خالی ہاتھ گھر جانے پر مجبور ہیں۔ ہم ہر ماہ بجلی اور گیس کے بل ادا کرتے ہیں، مگر ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا۔اس ملک میں ہمیں کچھ بھی میسر نہیں، اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہوگا”۔
مظاہرین ملی نغمے سن رہے ہیں، جو 1965ءکی جنگ میں فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے تیار کئے گئے تھے۔صنعتکار مہر کاشف یونس کا کہنا ہے کہ اس وقت معیشت اپنی بقاءکی جدوجہد میں مصروف ہے۔ وہ لاہور چیمبر کے سنیئر نائب صدر ہیں، انھوں نے ہی آج کے احتجاج کی کال دی تھی۔
مہر کاشف یونس(male) “ہمیں اپنے حقوق کیلئے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، کیونکہ یہاں بجلی اور گیس دستیاب نہیں، اگر ہمیں گیس اور بجلی ملتی بھی ہے تو وہ بہت مہنگی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح ہم ملک اور بیرون ملک مسابقت کے قابل ہی نہیں رہے، خصوصاً ٹیکسٹائل صنعت کے برآمدی صارفین تو دیگر ممالک کا رخ کرنے لگے ہیں، ایسا جاری رہا تو پاکستان کی معیشت کا کیا حال ہوگا؟”
سترہ ٹریڈ یونینز رہنماءبھی حکومت سے حالات بہتر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں، ملک محمد مشتاق ان رہنماﺅں میں شامل ہیں۔
ملک محمد مشتاق(male) “مناسب مقدار میں گیس سپلائی نہ کرکے حکومت صنعتوں کو تباہ کررہی ہے، ہمارے صنعتکار اور تاجر بیرون ملک کا رخ کررہے ہیں، جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، یہ معیشت کا قتل عام ہے، جس کی وجہ سے مزدور طبقہ بھی متاثر ہورہا ہے”۔
اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک تہائی حصہ بند ہوچکا ہے، یہ دعویٰ جاوید بلوانی نے کیا، جو Pakistan Aparell Forum کے چیئرمین ہیں۔
جاوید(male) “پاکستانی صنعتیں اب تیزی سے دیگر ممالک جیسے بنگلہ دیش، اردن، مصر اور سری لنکا میں منتقل ہورہی ہیں۔بنگلہ دیش زیادہ موزوں سمجھا جارہا ہے، کیونکہ وہاں متعدد پاکستانی پہلے ہی رہائش پذیر ہیں، اس لئے وہاں متعدد معاملات یا مسائل کو حل کرنا آسان ہے۔ اسی طرح نوجوان بہتر مستقبل کیلئے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں”۔
گزشتہ ماہ پاکستان نے اپنی ٹیکسٹائل صنعت کی بحالی نو کیلئے کراچی میں انٹرنیشنل ٹیکسٹائل ایکسپو کا انعقاد کرایا، جس میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی وسیع رینج نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا، مگر جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ توانائی کا بحران حل ہونے تک غیر ملکی سرمایہ کار دور رہنا ہی پسند کریں گے۔
جاوید(male) “بنگلہ دیش میں ہڑتالوں یا سیاسی احتجاج کے دوران بھی کوئی فریق ٹیکسٹائل کے شعبے کو تنگ نہیں کرتا،پاکستانی صنعتکار کی گاڑیوں کو خصوصی نمبر پلیٹیں دی گئی ہیں، جسے دیکھ کر گلیوں میں انہیں مظاہرین روکتے نہیں۔ اس کے مقابلے میں کراچی میں روزانہ اوسطاً بیس افراد مررہے ہیں، کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس گھر آ بھی سکے گا یا نہیں۔اس وجہ سے بھی صنعتکار بیرون ملک جارہے ہیں۔ آخری چیز جو صنعتکاروں کیلئے زیادہ پرکشش ہے وہ یہ کہ بنگلہ دیش کو یورپی مارکیٹوں تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے”۔
گزشتہ ماہ سے پنجاب میں ٹیکسٹائل شعبے کیلئے گیس سپلائی میں اضافہ کردیا گیا ہے، مگر یہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ اضافہ کتنے عرصے کیلئے کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا سارا انحصار نجی پاور پلانٹس پر ہے، اور ان کی جانب سے قدرتی گیس کی فراہمی بڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین توانائی کے بحران کو حل کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم(male) “ہم بجلی پیدا کرسکتے ہیں، اور اس برس کے اختتام تک اٹھارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ مگر بدقسمتی سے فرنس آئل اور درآمدی گیس کی لاگت بہت زیادہ ہے، جسکا بوجھ عوام برداشت نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ ہم ایسا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ انہیں سبسڈی فراہم کی جاسکے”۔
حکومت نے دو برس قبل توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے قومی توانائی پالیسی کا اعلان کیا تھا، مگر وہ ناکام رہی،حکومت نے نظام کو بہتر بنانے کی بجائے نجی پاور پلانٹس اور بیرون ملک سے بجلی خریدنا شروع کردی۔ پاکستان نے حال ہی میں ایران کے ساتھ گیس درآمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جبکہ وہ بھارت سے بھی بجلی خریدنے پر غور کررہا ہے۔ صائم علی ماہر معیشت ہیں۔ وہ حکومتی غفلت کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
صائم علی(male) “پاکستان میں توانائی کے بحران کی بنیادی وجہ صارفین کو فروخت کی جانے والی بجلی کی قیمت کی پیداواری لاگت کا بہت زیادہ ہونا ہے ، جس کی وجہ سے صارفین کو سبسڈی پر بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس شعبے میں کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، اور نہ ہی اس عرصے کے دوران کوئی نیا پاور پلانٹ لگایا گیا”۔
صائم علی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان عالمی معیشت میں جگہ بنانا چاہتا ہے تو حکومت کو قومی توانائی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی
صائم علی(male) “دیگر مما لک کی معیشتیں پاکستان کے مقابلے میںزیادہ آگے اس لئے ہیں، کیونکہ ان کے پاس توانائی کے وسائل موجود ہیں، ان کے پاس کوئلہ، گیس یہاں تک کہ خام تیل کے ذخائر موجود ہیں، جس سے وہ مقامی طلب پوری کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ یہاں توانائی کی ستر سے اسی فیصد طلب درآمدی تیل سے پوری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ہر چند برسوں بعد ادائیگیوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسے آئی ایم ایف کے در پر دستک دینا پڑتی ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی مستحکم توانائی پالیسی موجود نہیں، اس سلسلے میں اہم اصلاحات کی ضرورت ہے”۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔
یوسف رضا(male) “توانائی کے شعبے میں خطے کی سطح پر تعاون سے جنوبی ایشیاءمیں زیادہ خوشحالی اور استحکام آئے گا۔ سرمایہ کار پاکستان میں موجود مواقعوں کا احساس کریں، ہم اس وقت خطے میں گیس پائپ لائنز اور بجلی کی خریداری کیلئے کام کررہے ہیں۔ ہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے، توانائی کانفرنس کی سفارشات سے ہمیں بہتر پالیسی کی تشکیل میں مدد ملے گی۔ اس سے پاکستان، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان اچھی شراکت داری قائم ہوگی، اور سب اسٹیک ہولڈرز ملکر کام کرسکیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان میں انرجی سیکیورٹی کو یقینی بناسکیں گے”۔
ملک میں توانائی کی بچت کیلئے ہفتہ وار دو تعطیلات کی جارہی ہیں، جبکہ سرکاری دفاتر کے کھولنے اور بند ہونے کے اوقات کو کم کیا گیا ہے، مگر یہ واضح نہیں ان اقدامات سے کس حد تک بجلی بچائی جاسکے گی۔
اب واپس لاہور میں ہونے والے احتجاج کی جانب چلتے ہیں، پچاس سالہ مزدور عبدالوحید شہزاد حکومتی اقدامات کا انتظار کررہے ہیں۔
عبدالوحید(male) “میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے بدتر توانائی کا بحران نہیں دیکھا، جس کے باعث مجھے ملک کا مستقبل بہتر نظر نہیں آتا۔ صنعتیں تو اس صورتحال سے بچنے کیلئے دیگر ممالک میں منتقل ہورہی ہیں، مگر غریب مزدور طبقہ کیا کرے؟ وہ تو اسی صورت میں زندہ رہ سکتے ہیں جب انہیں روزانہ کام ملے ورنہ نہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
Leave a Reply