Noise Pollution صوتی آ لو د گی
آواز قدرت کی بہت خوبصورت اور معجزاتی نعمت ہے،شاعروں نے سریلی اور نقرئی آواز کے الفاظ اپنی شاعری میں استعما ل کےے ہیں۔ قدرت کا یہ انمول تحفہ کانوں کے ذریعے ہمیں بھلی لہروں سے محظوظ کرتاہے اور ہم اپنے ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔لیکن جب یہ آواز حد سے بڑھ جائے تو شور بن جاتی ہے۔ ایسی آواز جو قدرتی عمل میںکسی قسم کی رکاوٹ، خرابی یا انسان کے سننے کی طاقت یا برداشت سے باہر ہو تو شور کی آلودگی میں شمار ہوتی ہے۔
شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ جسے ہمارے ملک میں کسی بھی طور اہمیت نہیں دی جارہی، حالانکہ یہ ان دیکھی آلودگی ہماری زندگیوں،جسمانی و ذہنی صحت اور ترقی پر براہِ راست اور بلاواسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثلاً شور کے حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی حِس کو بری طرح تباہ کردیتی ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی سے کیا جائے تو شور کی آلودگی کے عناصر ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیں گے مگر آواز کی لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی ہیں۔اس بارے میں ایک طبی ماہر ڈاکٹرصائقہ کا کہنا ہے کہ شورکی آلودگی سے لوگوں میں غصہ اور جھنجلاہٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ ءصحت نے شور کی سطح کے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ شور کاپیمانہ ڈیسی بل ہے اور عالمی ادارہ ءصحت کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کی حد45، کمرشل علاقوں میں 55 اور صنعتی علاقوں میں 65 ڈیسی بل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان کے بڑے شہروں میںشور کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔اس بارے میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر معظم کاکہناہے کہ ملک کے چھ بڑے شہروں میں شورکی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ہماری روز مرہ زندگی میں ایسے کئی معمولات ہیں جن کی وجہ سے ہم شور کی آلودگی کو خود پرمسلط کرلیتے ہیں جیسے FM ریڈیوسننے کے لیے کانوں میںائرفون لگانا،اونچی آواز میں ریڈیو یا ٹیپ سننا، جنریٹر کی آوازاورمختلف مشینوںکا شور ۔ان سب کی وجہ سے ہماری سننے کی حِس ب±ری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اونچی آواز کی وجہ سے ہمارے اندر ایسا تناﺅ پیدا ہوتا ہے جو بعض اوقات دماغ کی رگ پھٹنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔اسی بارے میں کراچی کے ایک بس ڈرائیورطارق احمد جو کہ 4-Lروٹ کی بس گزشتہ بارہ سال چلارہے ہیں،شور کی آلودگی کے باعث پیش آنیوالی مشکلات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
سائنسدانوں کی ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اس کے سننے کی حِس
بتدریج زائل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے، اس کی وجہ سے انسان ٹینشن، اعصابی تناﺅ، بے چینی اور طبعیت میں چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں اور ذہنی صحت پر ب±را اثر پڑتا ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر صائقہ کا کہنا ہے۔
کراچی کے معروف اور سب سے بارونق بازار صدر میں الیکٹرونکس کی دکان کے مالک معین الدین اور انکے ساتھی شورکی آلودگی کے باعث قوت سماعت میں کمی اور بلڈپریشرکی شکایت کرتے نظرآتے ہیں۔
صدرمیں جب ایک گھریلو خاتون مسزاسلم سے ،جو کہ کریم آباد سے خریداری کیلئے صدر آئی ہوئی تھیں، اس بارے میں پوچھا گیا توانکا کہنا تھا۔
انسانی سماعت جب شور کی آواز سے متاثرہونا شروع ہوتی ہے توانسان کو کم سنائی دینے لگتا ہے۔ اس حوالے سے ٹریفک پولیس کے اہلکار سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں، جو دن رات پرہجوم شاہراﺅں پر ٹریفک کنٹرول کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک ٹریفک پولیس اہلکاراختر کا اس بارے میں کہنا ہے۔
ہمارے ملک میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے کوئی خاص میکانزم موجود نہیںاور اس حوالے سے عوام میں آگاہی کی شرح بھی صفر ہے۔حالانکہ گزشتہ چند برسوں میں ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے مگر ہماری حکومت بہت سے بنیادی مسائل کی طرح اس بڑے مسئلے پر بھی پ±راثر پالیسی بنانے یا کسی قسم کی پلاننگ کرنے میں سردست ناکام ہے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply