Loadshedding لوڈشیڈنگ
پاکستان ویسے تو کئی سال سے توانائی کے بحران کا شکار ہے لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے پاکستانی معاشرے کا ہر طبقہ بجلی اور گیس کی کمی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ لوگوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں ،دوسری جانب صنعت کا پہیہ رک رک کر چلتا ہے۔
پاکستان میں پیپکو کا ادارہ بجلی کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ واپڈا اور آئی پی پیزبجلی پیداکرکے پیپکو کے حوالے کرتے ہیں جسے پیپکو8 کمپنیوں کے ذریعے ملک بھرمیں صارفین تک پہنچاتا ہے۔پیپکوکے ڈائریکٹر جنرل محمدخالدبجلی کی تقسیم کے نظام کے بارے میں بتارہے ہیں۔
مگریہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پندرہ سال پہلے اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی اور گیس پیدا کرنے والا ملک اس حال کو کیسے پہنچا؟ایک رپورٹ کے مطابق 15 سال پہلے پاکستان میں 6 ہزارمیگاواٹ بجلی ضرورت سے زائد موجود تھی، جبکہ آج ملک کو ساڑھے 4ہزار میگاواٹ تک بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔اس دوران ملکی آبادی میں اضافہ ہوا، نئی صنعتیں لگیں اور لوگوں میں الیکٹرونکس مصنوعات کے استعمال کا رجحان بڑھا لیکن بجلی کی ضرورت کے تناسب سے نئے پاور پلانٹس کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔اس بارے میں ڈی جی پیپکوکا کہنا ہے کہ طلب میں اضافے کے باوجودگزشتہ8 سال کے دوران بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔
حالانکہ صوبہ سرحد میں ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بہتے دریاو¿ں سے پیدا کی جا سکتی ہے اور سندھ میں کوئلے کے ذخائرسو سال تک توانائی کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیںجبکہ بلوچستان قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہے، پھر بھی لوگوں کا برا حال ہے ۔اس مسئلے کی ابتداءکیسے ہوئی؟ اس بارے میں ڈی جی پیپکوکا کہنا ہے۔ اگر ملک کا ہرپاورپلانٹ مکمل استعداد سے کام کرے تو بجلی کی پیداوار20 ہزارمیگاواٹ تک حاصل کی جاسکتی ہے، جبکہ اس وقت ملک میں مجموعی طلب موسم گرما میں 18سے 19ہزارمیگاواٹ رہنے کا امکان ہے۔تاہم ہائیڈل پیداوارمیں کمی کے باعث رواں سال شارٹ فال 4سے 5 ہزارمیگاواٹ رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان میں کل پیدا شدہ بجلی کا قریباً ایک چوتھائی حصہ چوری ہو جاتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک کو اتنی ہی بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ یعنی اگر چند ہزار صارفین بجلی چوری کرنا بند کردیں تو لاکھوںلوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نے ان علاقوں میں جہاں بجلی کی چوری بہت زیادہ ہے،وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ایک گھنٹے سے بڑھا کر ڈیڑھ گھنٹے کرنیکا اعلان کیا ہے ۔چیف ایگزیکٹو آفیسر کے ای ایس سی تابش گوہرنے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ شہر میں موجود 1100 فیڈرز پر ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور بقیہ 25 فیصدپر جہاں بجلی چوری ہوتی ہے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بجلی امیر علاقوں میں چوری ہوتی ہے۔تابش گوہر نے کہا کہ جس نظام میں 35 فیصد بجلی ضائع ہو،جس میں دو تہائی بجلی چوری ہوتی ہو اور30 فیصد صارفین کسی بھی وجہ سے اپنے بل وقت پر ادا نہ کررہے ہوں وہاں یہ توقع رکھنا سراسر ناجائز ہے کہ بجلی کی فراہمی میں کوئی تعطل نہ ہو۔ کے ای ایس سی کی جانب سے دکانداروں کویہ پیشکش بھی کی گئی ہے کہ اگر وہ رات 8 بجے تک اپنا کاروبار بند کردیں تو انہیں لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا۔
جس پر تاجروں نے مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس پیشکش پر عملدرآمدکا مطالبہ کیا۔
وفاقی حکومت نے بجلی کے بدترین بحران سے نمٹنے کےلئے کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبہ پر لاگت 30 ارب روپے آئے گی ۔ڈی جی پیپکوکا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 8 کرائے کے بجلی گھروں کی تنصیب کی منظوری دیدی ہے۔
کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کے بل پر ہی گزشتہ سال تک پانی وبجلی کے وفاقی وزیرراجہ پرویز اشرف مختلف دعوے کرتے رہے تھے کہ ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائیگا۔
انکاوعدہ تو پورا نہ ہو سکامگر اب انھوں نے کوئی حتمی ڈیڈلائن دینے سے انکار کردیا ہے۔
ملک بھر میں بجلی کے بحران کے باعث مختلف شہروں میں زبردست احتجاج کیا جارہا ہے، آزادکشمیرکے ضلع میرپورمیں احتجاجی مظاہرے کے دوران درجنوں افراد زخمی ہوگئے تھے، جبکہ راولاکوٹ میں کئی دن تک ہڑتال کی گئی۔اسی طرح پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں۔
لوڈشیڈنگ کیساتھ ساتھ عوام کیلئے ایک اور مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے، گزشتہ سال اکتوبر سے مارچ 2010کے دوران بجلی کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 21فیصد سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان نے 2009اور10میںشدید سردی کے موسم میں بجلی کی 10 سے 14 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا کوئی ریکارڈ قائم کردیا تھا، جبکہ اب موسم گرما میں اٹھارہ سے بائیس گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کرکے ایک اور ریکارڈبنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جوکہ غالباً دنیا کا کوئی ملک نہیں توڑ سکے گا۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | ||
6 | 7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 |
13 | 14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 |
20 | 21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 |
27 | 28 | 29 | 30 | 31 |
Leave a Reply