Written by prs.adminJune 14, 2012
Kohistan Issue سا نحہ کو ہستان
Social Issues . Women's world | خواتین کی دنیا Article
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں جہاں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے جدید سہولیات کا فقدان ہے ایسے میں سب سے زیادہ افسوس ناک یہاں کا جرگہ سسٹم اور اسکے تحت سنائی جانے والی غیر قانونی سزائیں ہیںاس حوالے سے کئی واقعات اب سے پہلے بھی سامنے آچکے ہیں حال ہی کوہستان میں ایسا ہی واقعہ سامنے آیا ہے بتایا جاتا ہے کہ شادی کی تقریب میں رقص کرنے کے جرم میںواجب القتل قرار دے کر 5لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجبکہ اس تقریب کی وڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں چند خواتےن کو تالیاں بجاتے اور دو لڑکوں کو رقص کرتے دکھایا گیا ہے۔جرگہ پختون ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور قبائلی علاقوں میں زیادہ تر مقدمات کا فیصلہ علاقائی سطح پر جرگے کے تحت کیا جاتا ہے اس سے قبل بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب جرگہ سسٹم کے تحت سنائے گئے فیصلون کو انسانی حقوق خصوصاً خواتین اور اسکے ساتھ ساتھ اقلیتی برادریوں کے استحصال کے مترادف قرار دیا گیا تھا۔
جرگہ سسٹم کے تحت سنائی جانے والی غیر قانونی سزاﺅں خصوصاً حالیہ کوہستان کیس کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اس سلسلے میں خصوصی ٹیمیں بھی مذکورہ علاقے میں بھیجی گئیں جن میں انسانی و سماجی حقوق کی کارکن فرزانہ باری اور رفعت بٹ بھی شامل تھیںجن کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کو قتل کی سزا سنائی گئی لیکن یہ تمام خواتین زندہ ہیں:
دوسری جانب وڈیو میں رقص کرتے دکھائی دینے والے لڑکوں بن یاسر، گل نذرکے بھائی افضل کوہستانی کا کہنا ہے کہ جرگے کے تحت سنائے گئے ظالمانہ فیصلے کے تحت اِن تمام خواتین کو ذبح کر دیا گیا ہے،اس تمام واقعے کو میڈیا میں لانے والے افضل کا کہنا ہے کہ ُانکی جان کو بھی خطرہ ہے:
مذکورہ واقعے میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ، فوٹیج جعلی ہے یا اصلی،سزا پانے والی خواتین زندہ ہیں یا پھر انھیں قتل کر دیا گیا ہے تاحال اس بارے میں کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے،لیکن کوہستان جانے والی ٹیم میں شامل فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ کوہستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں خواتین کے خلاف فتویٰ دینے اور غیر قانونی سزائیں سنانے کا رجحان عام ہے جسکی حوصلہ شنکی ہونی چاہئیے:
اس نوعیت کے واقعات سے پاکستان کا امیج بین الاقوامی سطح پر بری طرح متاثر ہوا ہے اس بارے میںاقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ کوہستان واقعہ خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ انھوں نے جرگہ سسٹم اوراسکے تحت سنائے جانے والے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیا،دوسری جانب ہزارہ ڈویژن اور کوہستان ضلع کے سرکاری افسران ابتدا سے ہی اس واقعے کی تردید کر رہے ہیں، اس بارے میں صوبہ خیبر پختون خوا ہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار کا کہنا ہے :
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحقیقات کیلئے کوہستان جانے والی ٹیم سے اصل حقائق چھپائے گئے ہیں اس بارے میں سماجی کارکن رفعت بٹ ایڈووکیٹ کے مطابق معاملات واضح کرنے کیلئے اس علاقے کا دورہ کرنا ضروری ہے، جبکہ اس کیس کی سماعت20 جون تک ملتوی کر دی گئی ہے اوراعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نامزد کردہ کمیشن کی سربراہ ایڈیشنل سیشن جج صوابی منیرہ عباسی اس علاقے کا دورہ کرنے کے بعد سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کریں گی۔اس تما م واقعے کے خلاف نہ صرف ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ لوگ حقائق بھی جاننا چاہتے ہیں ،ایک ہی ملک میں واقع ریاست کے قوانین کے تحت آنے والے ایک علاقے میں خواتین کو محض ایک تقریب میں تالیاں بجانے کے جرم میں سرعام قتل کر دیا گیا۔۔۔یہ نہ صرف افسوس ناک اور دلخراش واقعہ ہے بلکہ انسانی و سماجی حقو ق پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے جبکہ اس تمام واقعے کے حوالے سے آنے والے متضاد بیانات اور مسائل کی نشاندہی کے بجائے حقائق کو چھپانے کی کوششیں عام آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیںکہ آخر سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔۔۔اگر یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی ہے تو اِسکی وجہ سے ملک بھر میں پھیلنے والی سنسنی خیزی کا ذمے دار کون ہے اور اگر یہ واقعہ سچا ہے توایک سوال سب ہی کے ذہنوں میں چکرارہا ہے کہ ۔۔۔کیاہمارے ہاں جنگل کا قانون رائج ہے؟؟؟؟؟
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply