Karokari کا رو کا ری
کاروکاری جیسی ظالمانہ رسم کی بھینٹ چڑھنے والی خواتین موت کے آہنی شکنجے سے کم ہی بچ پاتی ہیں اور زندگی وفا کر ے تو بھی معاشرہ اور قانون تحفظ نہیں دیتا، کیا ہوتا ہے ان قسمت لڑکیوں کے ساتھ اور زمین و آسمان کے بیچ انھیں کہاں پناہ ملتی ہے۔۔۔سنتے ہیں کاری قرار دی جانے والی ایک بد نصیب کی داستان۔۔۔
گھوٹکی کے قریب چوک شہباز پور کی رہائشی22سالہ ثمینہ دھوندو پر اُسکے رشتے داروں کی جانب سے کاری کاالزام ہے،ایک کمسن بچے کی ماں ثمینہ دھوندو قتل کئے جانے کے خوف سے گھر سے بھاگ کر تحفظ کے حصول کیلئے عدالت پہنچ گئی ،ثمینہ کی درخواست ہے کہ اُسے اُسکے اپنوں سے بچایا جائے جو اُسکی جان کے درپے ہیں:
ثمینہ کے چچا کا کہنا ہے کہ ثمینہ کا بہنوئی قربان دھوندو اُس پر بری نظر رکھتا تھاجس نے ثمینہ کی جانب سے سخت رد عمل ملنے پراہل خانہ کو اُسکے خلاف بھڑکایا ، قربان کے قریبی دوست اور علاقے کے نامی گرامی سردار جام اقبال دھوندو نے ثمینہ کو کاری قرار دینے کیلئے اسکے گھر والوں پر دباﺅ ڈالا ، ثمینہ کسی طرح جان بچا کر اپنے بچے کو لے کراوباڑو میں مقیم اپنے چچا کے پاس چلی آئی ، ثمینہ سے جب ہم نے پوچھنے کی کوشش کی کہ قریبی رشتے داروں نے اُس کے ساتھ ایسا کیوں کیا تو اُس نے کہا:
عدالت نے ثمینہ کو دارالامان سکھر بھجوانے کی ہدایت کی ہے ، ثمینہ کا کہناہے کہ وہ دارالامان نہیں جانا چاہتی جبکہ اُسکے خاندان کی جانب سے اُسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں:
ثمینہ تحفظ کیلئے پہلے اپنے خاندان پھر پولیس اور اسکے بعد اب میڈیا کے نمائندوں سے مدد کی بھیک مانگ رہی ہے،گھر کی چار دیواری عبور کر نے کے بعد سماج کے سوالوں کاسامناکرنا کسی بھی عورت کیلئے آسان نہیں ہوتااور بعض اوقات تو نوبت یہاں تک پہنچتی بھی نہیں،گھر جیسی محفوظ پناہ گاہ میں بھی خواتین کو کاری کر کے مار دیا جاتا ہے ایسے میں ثمینہ اُن خوش نصیب عورتوں میں شامل ہے جو کاری قرار دیے جانے کے بعد موت کو دغا دینے میں کامیاب ہو گئیں!
کئی سو سال پہلے بیٹیوں کو جنم لیتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا اور کئی سو سال بعد بیٹیوںکو پال پوس کر بڑا کرنے کے بعدزندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔۔۔ کون کہتا ہے ہم تہذیب یافتہ قوم ہیں، حوا کی بیٹیاں تو آج بھی اپنے حقوق کیلئے پناہ اور تحفظ کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں!
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply