Written by prs.adminFebruary 27, 2014
Indian’s Well of Deathبھارتی موت کا کنواں
General Article
بھارت میں کوئی بھی میلہ موت کے کنویں کے بغیر مکمل سمجھا نہیں جاتا، جہاں موٹرسائیکل پر انتہائی خطرناک کرتب دکھائے جاتے ہیں، بھوپال میں ایک میلے میں اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے والے ان افراد کے بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
لکڑی سے بنا یہ موت کا کنواں تیس فٹ لمبا اور 35 فٹ چوڑا ہے، اگرچہ یہ ایک خطرناک کرتب ہوتا ہے مگر لوگ اس کے دیوانے ہیں۔
بہار حسین آج یہاں کرتب دکھائے رہے ہیں، وہ روزانہ پانچ سو روپے کمالیتے ہیں۔
بہار حسین”یہ بہت خطرناک کام ہے، ہر چیز بہت مشکل ہے، آپ کو لکڑی کے بنے اس کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے، تو ہم زندہ رہنے کیلئے کرتے ہیں، ہم ایک سے دوسری جگہ جاکر لوگوں کو تفریح فراہم کرتے ہیں، یہی ہمارے کام کا بنیادی مقصد ہے”۔
بہار حسین چھ سال سے یہ کام کررہے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ کام ہمیشہ نہیں کیا جاسکتا۔
بہار حسین”ہم آئندہ مزید چند برس ہی یہ اسٹنٹ دکھاسکتے ہیں، اور اس کے بعد ہمیں یہ کام روکنا ہوگا، اس وقت ہمیں کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا، اللہ ہمین کوئی اور کام دے گا، اللہ ہی ہمیں اس پیشے سے نجات دلاسکتا ہے”۔
مگر بائیس سالہ محمد فہیم کیلئے یہ مجبوری نہیں بلکہ شوق ہے، وہ بھی چھ سال سے لوگوں کو تفریح فراہم کررہا ہے۔
محمد فہیم”میرا نہیں خیال کہ یہ خطرناک کام ہے، آپ کو بس حوصلے کی ضرورت ہے، ہر ایک ایسا کرسکتا ہے، یہ بس سڑک پر موٹرسائیکل چلانے جیسا ہے، میرے گھر میں ہر ایک نے مجھے یہ کام چھوڑنے کے لیے کہا، مگر یہ میرا شوق ہے، اور اسی وجہ سے میں اسے کررہا ہوں”۔
بہار حسین اور محمد فہیم موت کے کنویں کی ایک ٹولی کا حصہ ہیں، جس میں آٹھ موٹرسائیکل سوار شامل ہیں، یہ ٹولی ایک سے دوسرے شہر جاتی رہتی ہے، کئی بار یہ اپنے شوز کرتے ہیں اور کئی بار میلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ ٹولی دن بھر میں سو ڈالرز کمالیتی ہے۔
آج موت کے کنویں میں صرف موٹرسائیکلیں ہی نہیں بلکہ گاڑی بھی چلائی جارہی ہے، چالیس سالہ محمد رئیس کی آدھی زندگی یہ اسٹنٹ کرتے گزر گئی ہے، اس خطرناک کام کے ذریعے ہی وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرپاتا ہے اور چھوٹی بہن کی شادی کرپایا ہے۔
محمد رئیس”میرا خاندان، رشتے دار اور یہاں شوز دیکھنے آنے والے افراد نے مجھے یہ کام چھوڑنے کا مشورہ دیا، مگر یہ میرا شوق ہے، جو میں نے سیکھا اور اب یہ میرا روزگار کا ذریعہ بن گیا ہے۔ شروع میں ہم کچھ ڈرتے تھے مگر اب یہ ہمارے لئے آسان ہوگیا ہے”۔
اگرچہ یہ خطرناک کام ہے مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی بھی شخص شو کے دوران ہلاک نہیں ہوا، کچھ ریاستوں میں اس طرح کے شوز پر پابندی ہے، مگر مرکزی حکومت نے اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
آدھے گھنٹے کے شو کی ایک ٹکٹ پچیس سے پچاس روپے کے درمیان ہے، ڈرائیورز بہت تیزرفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کئی بار تو موٹرسائیکل ہاتھ چھوڑ کر بھی چلائی جاتی ہے اور اسٹنٹ کے دوران تماشائیوں کے ہاتھوں سے پیسے بھی جمع کئے جاتے ہیں، یہ کرتب بغیر کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کے کئے جاتے ہیں، اس خطرے کے باوجود ایک 41 سالہ ڈاکٹر فیروز ہاشمی اپنے بچوں کے ہمراہ یہ شو دیکھنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر ہاشمی”یہ پہلی بار ہے کہ میں یہاں اپنے بچوں کے ہمراہ یہ شو دیکھنے آیا ہے، پیسے کمانے کیلئے یہ لوگ جو کام کررہے ہیں وہ واقعی بہت خطرناک ہے، میرے خیال میں انہیں ٹیلیویژن پر اپنی صلاحیت کے اظہار کا موقع ملنا چاہے، ہمیں تو یہاں آکر بہت مزہ آیا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |