Written by prs.adminMay 3, 2012
(Drink Driving Crackdown in Nepal) نیپال میں مے نوش ڈرائیورز کیخلاف مہم
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
نیپال میں الکحل کے استعمال کے بعد ڈرائیونگ کر نے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا، جس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں افراد ہلاک ہورہے ہیں۔
اس وقت رات کے نوبجے ہیں اور ہم لوگ نیپالی دارالحکومت کی پرہجوم شاہراہ Kings’ Way پر موجود ہیں۔ یہاں ٹریفک پولیس کے آٹھ اہلکار ڈیوٹی کررہے ہیں، اور سڑک پر سے گزرنے والے ہر ڈرائیور کو روک کر دیکھ رہے ہیں کہ اس نے الکحل کا استعمال تو نہیں کر رکھا۔
ایک اہلکار نے موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو روکا، وہ ڈرائیور کے قریب آیا اور اس کے منہ کو سونگھا۔ اس موقع پر ڈرائیور Hum Bahadurنے اپنی شراب نوشی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی۔
(male) Hum Bahadur “جناب میں اس وقت اپنے دوست کی دعوت سے واپس آرہا ہوں، وہ حال ہی میں لیفٹننٹ بنا ہے، مجھے اس سے پہلے بھی حراست میں لیا جاچکا ہے،مگر آپ دیکھیں میرے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے، اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے جانے دیا جائے”۔
مگر اہلکار نے لائسنس دیکھنے کے بعد موٹرسائیکل اپنے قبضے میں لے لی اور نوجوان کیلئے ٹیکسی روک لی۔ اس طرح یہ خوش قسمت نوجوان گھر واپس چلا گیا، حالانکہ جب سے یہ نئی مہم شروع کی گئی ہے توالکحل کا استعمال ثابت ہونے پر ڈرائیور کو کم از کم ایک شب حوالات میں گزارنا پڑتی ہے، اس مہم کے آغاز سے ہی ہر شب دوسو افراد کو پکڑا جارہا ہے، جس کی وجہ سے تھانوں میں جگہ ہی نہیں بچتی۔ Sitaram Hachethu ٹریفک انسپکٹر ہیں۔
(male) Sitaram Hachethu “شراب نوش ڈرائیوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہمارے پاس ان کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کھڑی کرنے کیلئے جگہ ہی موجود نہیں۔ ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں اسی افراد کو بند کرپاتے ہیں،جہاں صرف بیس افراد کو ہی رکھا جاسکتا ہے۔ حوالات میں ان افراد کو پوری شب کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم گاڑیاں تو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں مگر ڈرائیورز کو گھر جانے کی اجازت دیدیتے ہیں”۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے پاس جدید ٹیکنالوجی موجود نہیں۔
(male) Sitaram Hachethu “ہم ان سے پوچھتے ہیں اور پھر ان کا منہ سونگھ کر معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس شخص نے الکحل استعمال کیا ہے یا نہیں۔ یہ بہت مشکل ہوتا ہے، ایک بار تو ہمارے ایک اہلکار نے ایک ڈرائیور کا منہ سونگھنے کے بعد قے کرنا شروع کردی تھی۔ ہم بھی اکثر اس طرح کی چیکنگ کے بعد طبعیت خراب محسوس کرنے لگتے ہیں، تاہم جلد ہی ہم چین سے مے نوشی کا ٹیسٹ کرنے والے آلات منگوا رہے ہیں، جس کے بعد ہمارے اہلکاروں کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا”۔
نیپال میں مے نوشی کے بعد ڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے، مگر اس قانون میں الکحل کی کوئی خاص مقدار طے نہیں کی گئی ہے۔
یہ قانون نیپال کی بہت سی ایسی برادریوں کیلئے مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے، جو ثقافتی تقاریب میں الکحل کا استعمال کرنے کی عادی ہیں۔Kiran Shrestha کا تعلق Newarبرادری سے ہے، جو کہ نیپال کی چھٹی بڑی برادری ہے۔ یہ برادری گھریلو ساختہ الکحل استعمال کرتی ہے، جبکہ کچھ برادریاں تو مذہبی تقاریب میں مے نوشی کو مقدس مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ Kiran Shrestha پولیس کی مہم کو اپنی برادری کیلئے ناانصافی سمجھتے ہیں۔
(male) Kiran Shrestha “پیدائش سے موت تک ہماری زندگی کے ہر مرحلے میں الکحل شامل ہوتی ہے۔ ہماری ہر ثقافتی تقریب اس کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے، ہمیں قانون میں اس حوالے سے کچھ پیمانے طے کرلینے چاہئے، تاکہ قوانین کے اندر رہ کر مے نوشی کرسکیں۔ہمارے لئے اپنی ثقافت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، اب تو ہم الکحل کا استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، میرے خیال میں الکحل کی قانونی مقدار تیس ملی میٹر رکھ دی جانی چاہئے”۔
ہوٹلوں کے مالکان کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ہوٹل مالکان کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پولیس کی نئی مہم کے بعد ان کی فروخت نصف رہ گئی ہے، تاہم پولیس کا ماننا ہے کہ یہ مہم معاشرتی بہتری کیلئے ضروری ہے۔ٹریفک پولیس کے انسپکٹر Sitaram Hachethu اس حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں۔
(male) Sitaram Hachethu “ہمیں مے نوش ڈرائیورز کے حوالے سے سخت موقف اپنانا ہوگا، ہماری سڑکیں ٹریفک سگنلز سے محروم ہیں، کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ یہاں کی سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے موجود ہیں۔ہماری مہم کے آغاز سے کھٹمنڈو میں شا م کے اوقات میں ٹریفک حادثات کی شرح اسی فیصد کم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد والدین اور خواتین نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے، کیونکہ ان کے بچے اب وقت پر گھر پہنچ رہے ہیں۔اسی طرح حالیہ اعدادوشمار سے معلوم ہوا کہ گھریلو تشدد کے واقعات کی شرح بھی کم ہوئی ہے”۔
قوانین کے مطابق الکحل کا استعمال ثابت ہونے پر پولیس ڈرائیور کی گاڑی اور ڈرائیونگ لائسنس اپنے قبضے میں لے سکتی ہے، جبکہ دس ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ڈرائیور دوبارہ قانون کی خلاف ورزی کرے تو جرمانے کی شرح بڑھ جاتی ہے، جبکہ ان ڈرائیورز کو ٹریفک پولیس اسٹیشن میں خصوصی ایک گھنٹے کی کلاس میں بھی حصہ لینا پڑتا ہے۔
تیس افراد اس وقت ایک ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان میں وکلاءسے لیکر فلاحی کارکن بھی شامل ہیں، جو مے نوشی کے بعد ڈرائیونگ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ہال کی دیواروں پر ٹریفک حادثات میں مر جانے یا زخمی ہو جانے والے افراد کی تصاویر ہیں۔ انسپکٹر Bipin Gautam ان ڈرائیورز کے سامنے لیکچر دے رہے ہیں۔
(male) Bipin Gautam “جب آپ نشے میں ہوں تو آپ کا جسم ہنگامی حالات میں تیزی سے ردعمل کا اظہار نہیں کرپاتا۔ان تصاویر کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ ان تصاویر میں موجود افراد کی طرح زندگی بھر کیلئے معذور ہوسکتے ہیں۔ بلغاریہ میں تو مے نوش ڈرائیورز کو عمر قید کی سزا سنادی جاتی ہے، ہم نے بھی چند قوانین بنا رکھے ہیں، تو براہ مہربانی ہماری بات پر عمل کریں اور مے نوشی کے بعد ڈرائیونگ نہ کریں”۔
اس کلاس کے بعد ہم نے Hira Kaji Pradhan نامی شخص سے بات کی، جسے بیس ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔
(male) Hira Kaji Pradhan “انھوں نے جو کچھ بھی کہا وہ بالکل ٹھیک تھا۔ مے نوشی کے بعد ڈرائیونگ کرنا بہت خطرناک کام ہے، لیکن میرے لئے تو یہ ایک عادت بن گئی ہے، جب الکحل چھوڑنے کے لئے کوئی دوا دستیاب ہی نہیں، تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ تاہم جب میں نشے میں ہوتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ڈرائیونگ نہ کروں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply