Bonded labour جبری مشقت
جبری مشقت میں جنوبی ایشیاءکا خطہ پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔عالمی ادارہ محنت ILOکے مطابق اس وقت دنیا میں 2 کروڑ 70 لاکھ افراد غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں 18 لاکھ افراد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں ایک کروڑ 50 لاکھ افراد جبری مشقت کے باعث جدید دور میں بھی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
جبری مشقت کے حوالے سے حکومتی، عالمی اور مقامی اداروں کے اعداد وشمار کو جوڑ کر دیکھا جائے تو ملک میںاندازاً 40 سے 50 لاکھ افراد آج بھی غلاموں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبری مشقت ہے کیا؟ عام مفہوم میں جبری مشقت کے تحت ایک زمیندار یا کارخانہ دار اپنے مزدورں کو چند ہزار روپوں کے عوض پابند کر لیتا ہے جس کے بعد وہ کسی اور کے ساتھ کام نہیں کرسکتے اور پھر ان کو ایسے نظام میں جکڑ لیا جاتا ہے کہ مزدور کو اپنی آزادی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر اشوک تھاما کا تعلق ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان سے ہے، وہ اس بارے میں بنیادی حقائق بتارہے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میںجبری مشقت کرنے پر مجبور 72 فیصدافراد کا تعلق سندھ سے ہے۔ ایسے مزدوروں کی بڑی تعداد زراعت ، اینٹوں کے بھٹوں، دستی کھڈیوں اور قالین بافی کی صنعت سے وابستہ ہے۔اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے 50 فیصد بچے 10 سے 14 سال کی عمر کے ہیں۔ ان بھٹوں پر خواتین اور بچوں کو مزدوروں کی فہرست میں شامل کئے بغیر کام لیا جاتا ہے اور ان کی اکثریت اجرت سے بھی محروم رہتی ہے۔پاکستان بھٹہ مزدوریونین کے جنرل سیکرٹری محموداحمد کا کہنا ہے کہ بھٹہ مزدورکی کم ازکم اجرت دوسال قبل ایک ہزار اینٹوں کی تیاری پر 442روپے مقررکی گئی تھی، مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔
اسی طرح قالین بافی یا دیگر کارخانوں میں بھی مزدوروں کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے اور کم ازکم مقرراجرت دینے کا تو تصورتک موجود نہیں۔ نیاز خان، اتحاد لیبریونین قالین بافی انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
زراعت ایسا شعبہ ہے جہاں کھیت مزدوروں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بیگار لی جاتی ہے۔قرض اور پیشگی رقم کی ادائیگی کے لیے یہ غریب مزدور گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔کچھ زمینداروں نے تو نجی جیلیں تک قائم کر رکھی ہیںجہاں ان مزدوروں پرتشدد کیاجاتا ہے، زنجیروں سے باندھا جاتا ہے اور ان کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ نسل در نسل یہ لوگ اپنے گھرکی ملکیت سے محروم رہتے ہیں اورحکم عدولی کی صورت میں مکان سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔زمینداروںکی قید سے بھاگے ہوئے چند ہاری اور ایک بھٹے پرکام کرنیوالامزدور اس قید کا احوال بتا رہے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں 1992ءمیں ایک قانون کے ذریعے جبری مشقت پر پابندی عائد کی گئی تھی، مگر اینٹوں کے بھٹوں سے لے کر کھیتوں اور کارخانوں تک جبری مشقت کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔نیشنل ٹریڈیونین فیڈریشن آف پاکستان کے چیئرمین یوسف بلوچ کا کہنا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف 2009ءکے دوران سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان نے 1000سے زائد افراد کو جبری مشقت سے نجات دلائی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1989ءسے آج تک جبری مشقت لینے والے کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ملی۔تاہم غیرسرکاری سطح پر اس سلسلے میں کام کیا جارہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ویرو نے اس سلسلے میں قابل قدر کام کیا ہے جو خود بھی اپنے خاندان کیساتھ ایک مقامی کاشتکارکی زمینوں پر جبری مزدوری کرتی تھیں، لیکن اب ویرو اس قید سے آزادی کے بعد جبری مشقت کیخلاف مہم چلا رہی ہےںاور اب تک وہ 700 سے زائد افراد کو جبری غلامی سے آزاد کرواچکی ہیں۔ان کی خدمات پر غلامی کے خاتمے کیلئے کام کرنیوالے عالمی ادارےFree The Slavesنے انہیں 2009ءمیںFreedom Award سے نوازا ۔
حال ہی میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے بھی عالمی یوم مزدورپر نئی لیبرپالیسی کا اعلان کیا، مگر گڈگورننس کے فقدان کی وجہ سے مزدوروں اور کسانوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔پاکستان بھٹہ مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری محموداحمد کا کہنا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد ہو تو ملک سے جبری مشقت کا نام ونشان ہی مٹ جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروں کے حقوق کیلئے موجود قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ملک عزیز کے لاکھوں افراد جدید دور کی غلامی سے نجات حاصل کرسکیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply