Written by prs.adminJune 28, 2012
(Afghan Dancing Boys ) افغان رقاص لڑکے
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
(Afghan Dancing Boys ) افغان رقاص لڑکے
خواتین کے کپڑے پہنے مرد رقاص افغانستان میں ہونیوالی تقریبات کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ افغانستان میں سرکاری طور پر اس چیز پر پابندی ہے مگر طالبان دور کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
ہم لوگ اس وقت شمالی افغان صوبے بلخ میں ہونیوالی ایک شادی کی تقریب میں موجود ہے۔ یہاں موجود تمام مہمان مرد ہیں، جو ایک نوجوان لڑکے کے رقص کو دیکھتے ہوئے تالیاں بجارہے ہیں۔پندرہ یا سولہ سال کے اس نوجوان نے لڑکیوں کا لباس پہن رکھا ہے۔31 سالہ منصور مہمانوں میں شامل ہیں۔
منصور(male) “رقاص لڑکوں کی تقریبات میں شمولیت کی روایات ہمارے بزرگوں کے دور سے چلی آرہی ہے۔ ہم اسے اپنی رسوم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ روایت بہت پسند ہے اس سے ہمیں لطف حاصل ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ کچھ لوگ کاروبار پسند کرتے ہیں، جبکہ بہت سے افراد دیگر چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یعنی ہر شخص کی دلچسپی مختلف ہوتی ہے، مجھے ان لڑکوں کے رقص کو دیکھنا پسند ہے”۔
رقص کرنے والے یہ نوجوان صرف شمالی افغانستان ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں تقاریب میں نظرآتے ہیں۔ اٹھارہ سالہ فہیم بھی ایسا ہی نوجوان ہے جو مغربی افغانستان کے مختلف علاقوں میں رقص کا کام کرتا ہے۔فہیم کو ایک مقامی جنگجو سردار نے خرید رکھا ہے اور وہ اس کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہے۔
فہیم کا خاندان صوبہ ہرات کے ضلع Shindand میں مقیم ہے، اور وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ تاہم فہیم کو اپنا زیادہ وقت جنگجو سردار کے گھر میں گزارنا پڑتا ہے۔
فہیم(male) “میرے والد ایک بڑھئی تھے، اب بوڑھاپے کے باعث وہ کام کرنے سے قاصر ہیں اور اب خاندان کی کفالت میری ذمہ داری بن چکی ہے۔ میں بارہ سال کی عمر سے کام کررہا ہوں، پہلے میں ایک دکان میں ملازم تھا مگر ایک جنگجو سردار مجید خان اور دیگر چند لوگوں کے مشورے پر میں نے رقص کا پیشہ اپنا لیا تاکہ زیادہ رقم کماسکوں۔ یہ ایک آسان کام ہے، میں مجید خان کے ہمراہ تقاریب میں جاتا ہوں، اور جو وہ کہتا ہے میں کرتا ہوں، مجید نے مجھ پر انتہائی مظالم بھی ڈھائے ہیں جن میں جنسی زیادتی وغیرہ بھی شامل ہیں، جسکی تفصیلات سے میں آگاہ نہیں کرسکتا”۔
وہ مزید بتارہا ہے۔
فہیم(male) “مجھے جنگجو سردار کا غلام سمجھا جاتا ہے اور وہ جیسے چاہتا ہے میرا استعمال کرتا ہے۔ وہ مجھے مختلف تقاریب میں رقص کراتا ہے، کئی بار وہ مجھے خواتین کے ملبوسات پہنا کر رقص کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے بدلے میں وہ مجھے رقم اور دیگر سامان جیسے ٹی وی یا ڈی وی ڈی وغیرہ دیتا ہے”۔
واپس بلخ میں ہونیوالی تقریب میں چلتے ہیں، یہاں جو گیت چل رہا ہے وہ لڑکوں کے رقص کیلئے ہی مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دھن آہستگی سے شروع ہوتی ہے اور پھر تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم نے منصور سے اس گیت کے معنی پوچھے۔
منصور(male) “اس میں کہا گیا ہے کہ خدا ہمیں اور ہمارے لڑکوں کو بچائے۔ جب اس گیت کی موسیقی شروع ہوتی ہے تو لڑکے رقص شروع کردیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس کریں گے کہ ان کے قدم ہمارے دلوں میں پڑ رہے ہیں”۔
متعدد حلقے اس رجحان کو اسلامی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہیں، تاہم منصور کو اس میں کچھ خرابی نظر نہیں آتی۔
منصور(male) “نہیں یہ کوئی گناہ نہیں، میں رقص دیکھنا اور ان لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتا ہوں۔ کئی بار پولیس اہلکار بھی ہماری تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ رقاص لڑکے ہمارا احترام کرتے ہیں، جس کے بدلے میں ہم انکی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ہم انہیں رقم دیتے ہیں، گاڑیاں اور دیگر اشیاءدیتے ہیں”
ان رقاص لڑکوں کی حقیقی تعداد تو معلوم نہیں تاہم حکومت اس مسئلے سے بخوبی آگاہ ہے کہ غربت کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد اس کام پر مجبور ہورہی ہے۔بلال صدیقی افغانستان ہیومین رائٹس کمیشن کے عہدیدار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ رجحا ن افغان نوجوانوں اور بچوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ تفریح کے نام پر انکا استحصال کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان عوام میں اس حوالے سے شعور نہ ہونے کے برابر ہے، تا ہم حکومت اس مسئلے پر عوامی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تاہم حکومتی کوششیں ناکافی ہیں کیونکہ خود حکومتی عہدیدار اس کام میں ملوث ہیں۔ فہیم اب یہ کام چھوڑنے کا خواہشمند ہے۔
فہیم(male) “اب جب بھی میں گھر آتا ہوں تو میرے رشتے دار، مقامی دکاندار اور پڑوسی مجھے انتہائی نفرت سے دیکھتے ہیں۔ کئی بار میں سوچتا ہوں کہ آخر میں یہ کام کیوں کررہا ہوں؟ اب میری عمر اٹھارہ سال سے زائد ہوچکی ہے اور مجھے شعور آچکا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں۔میں اب یہ کام نہیں کرنا چاہتا اور دیگر لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ میں تمام بڑے افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ ہم نوجوانوں کو اس کام کیلئے استعمال نہ کریں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply