Acid and Burn Act 2011 ایسڈ ایکٹ دو ہزار گیا رہ
پاکستان یا دیگر ترقی پذیر ممالک میں خواتین پر تشدد کی ایک انتہائی بدترین قسم تیزاب پھینک دینا کافی عام ہے، جسکی کئی وجوہات ہوتی ہیں، جیسے رشتے سے انکار، جہیز، میاں بیوی کے درمیان جھگڑا یا خواتین کی جانب سے خود کو چھیڑنے سے روکنا وغیرہ۔نائلہ بھی ایسی ہی ایک متاثرہ خاتون ہیں، وہ اپنے اوپر ہونیوالے ظلم کی تفصیلات بتارہی ہیں۔
پاکستان میں تیزاب اور دیگر کیمیائی مواد پھینک کر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے جرائم کی حوصلہ شکنی کے لیے قومی اسمبلی نے دس مئی 2011ءکو ایک قانون Acid and Burn Crime Act 2011 کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ اس حوالے سے چند سال قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ایک کیس کی سماعت کے دوران انتظامیہ کو بنگلہ دیش کی طرز پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی اور اقدامات کرنیکی ہدایت کی تھی۔
Acid Survivors Foundationنامی ادارہ ،اقوام متحدہ کے تحت صنفی انصاف و تحفظ GGP کے منصوبے پر 2006ءسے کام کررہا ہے۔
قومی اسمبلی میں منظور کئے گئے نئے قانون کا مقصد تیزاب پھینکنے جیسے جرائم کی روک تھام اور اس طرح کے جرائم کا شکار ہونے والوں کی بحالی اور تلافی کے لیے احکام وضع کرنا ہے۔مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن دو سال سے اس حوالے سے سرگرم ہیں، انھوں نے اس مسودے کو پیش کیا تھا اور اسکی منظوری میں بھی انھوں نے کردار ادا کیا۔
خیال رہے کہ مناسب قوانین کی عدم موجودگی کے باعث ملک میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعدادوشمار تو موجود نہیں، تاہم اندازہ ہے کہ ہرسال تیس سے پچاس کے درمیان تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوتے ہیں۔Acid Survivors Foundationکی پراجیکٹ مینیجر رانی گل اس حوالے سے کچھ اعدادوشمار بتارہی ہیں۔
ماروی میمن کا کہنا ہے کہ حکمران طبقہ مجرمان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جبکہ پولیس بھی اکثر واقعات میں ملوث ہوتی ہے، تاہم اس قانون کے تحت یہ لازم کردیا گیا ہے کہ اس کا نفاذ ہر رکن اسمبلی اپنے اپنے حلقے میں کرائے۔انکا کہنا ہے کہ تیزاب سے حملے جیسے خوفناک جرم کے تدارک کے لیے مجرم کو سخت ترین سزا دیئے جانیکی ضرورت ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین کی موجودگی کے باوجود پولیس کے نظام میں خامیوں، بد عنوانی اور با اثر افراد کی معاونت سے اکثر جرائم پیشہ افراد سزا سے بچ نکلتے ہیں۔اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قانون کو مثالی بنانے کیلئے متعدد حلقوں نے کردار ادا کیا،جس کے بارے میں Acid Survivors Foundation کی رانی گل بتارہی ہیں۔
نئے ایسڈ بل کے ذریعے تعزیرات میں شامل کی گئی نئی شقوں کے تحت کسی شخص کو تیزاب سے ضرر پہنچانے والے مجرم کو عمر قید یا کم از کم 14 سال قید کی سزا سنائی جا سکے گی جب کہ عدالت مجرم پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی عائد کرنے کی مجاز ہو گی،تاہم یہ قانون ابھی ایوان بالا سینیٹ میں زیرالتوا ہے، جہاں سے منظوری کے بعد صدر کے دستخط سے یہ قانون نافذالعمل ہوگا۔ماروی میمن اس حوالے سے بتارہی ہیں۔
یہ قانون کتنا مو¿ثر ہو گا اور اس سے اس طرح کے جرائم میں کتنی کمی ہو گی یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ایسی بھی متاثرہ خواتین موجود ہیں، جو خود پر کئے جانیوالے حملے کے ملزمان سے ہی واقف نہیں۔نذیراں بی بی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
نذیراں بی بی کا کہنا ہے کہ تیزاب پھینکنے والے ملزم کو سخت سے سخت دی جانی چاہئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس جرم کی سزا بڑھانے کے ساتھ ساتھ متاثرہ خاتون کے چہرے کو صحیح کرنے کے لیے بھی ملک میں جدید طبی سہولیات فراہم کرے، تاکہ اس ظلم کا نشانہ بننے والی خواتین بہتر طور پر زندگی گزار سکیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply