Women in Business: Profile of Mrs Sunarni Santoso – کامیاب انڈونیشین کاروباری خاتون

انڈونیشین دارالحکومت جکارتہ میں مڈل کلاس کی توسیع سے خواتین کیلئے نئے کاروباری مواقع پیدا ہوگئے ہیں، تین بچوں کی ماں اور ایک کامیاب فوڈ چین کی مالکہ سنارنی سنٹوزکی کہانی اس حوالے سے کافی متاثر کن ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ

نوڈلز فرائی کرنے کی مہک، میٹھے سوئے سوس اور دیگر چیزوں کی خوشبوئیںباکسو لیپانگ ٹیمبک سینیاننامی فوڈ چین کے کچن سے نکل کر ارگرد کا ماحول مہکا رہی ہیں۔

اڑتالیس سالہ سوناورنی سینٹوز بہترین لباس میں ملبوس کچن سے باہر نکل رہی ہیں۔

وہ مہمانوں کا گرمجوش مسکراہٹ کیساتھ استقبال کررہی ہیں، اپنے دفتر میں بیٹھنے کے بعدسونارنی نے ہمیں بتایا کہ کس طرح انھوں نے انڈونیشین فوڈاسٹریٹ کی محبت کو فروغ دیا۔

سونارنی”میری پیدائش وسطی جاوا کے علاقے صلاح ٹیگا میں ہوئی، وسطی جاوا میں بیشتر افراد باکسو نامی مقامی ڈش فروخت کرتے ہیں، تو بچپن سے ہی ہم اسے کھانے کے عادی ہیں، جب ہم لوگ یہاں آئے تو بھی ہم ہر وقت باکسو کو ڈھونڈتے رہتے تھے”۔

باکسو ایک روایتی انڈونیشین پکوان ہے جو گوشت کے گولوں، نوڈلز، سبزیوں اور تلی ہوئی پیاز سے مل کر بنتا ہے، یہ پکوان انڈونیشیاءبھر میں گلی کوچوں میں آنے والے ٹھیلوں پر ملتا ہے۔

دو ہزار تین میںسونارنی نے اپناسینیان اسٹور ایک شاپنگ سینٹر پلوئٹ مال میں کھولا، ایک سال بعد ایک ٹی وی اسٹیشن میں یہ خبر سامنے آئی کہ کچھ ٹھیلے والے باکسوکی تیاری کیلئے چوہے کا گوشت استعمال کررہے ہیں۔

اس کے بعد جکارتہ کے متعدد افراد نے باکسوکو گلیوں سے خرید کر کھانا چھوڑ دیا۔

سونارنی سینٹوز”مقامی برادری کا ردعمل کافی اچھا تھا، جس کے بعد میں نے انڈونیشیاءبھر کے شاپنگ سینٹرز میں اپنے ہوٹل کھولنے کا فیصلہ کیا اور اب تک ہمارے 34 ریسٹورنٹس کھل چکے ہیں”۔

سونارنی سینٹوز کا کہنا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے مقابلے میں اپنا کاروبار کرنا زیادہ آسان ہے۔

سونارنی سینٹوز”اپنا کیرئیر میں نے ایک پراپرٹی کمپنی میں ملازمت سے شروع کیا، میں مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرتی تھی، پھر میری شادی ہوگئی اور پہلا بچہ ہوا، میں نے ملازمت جاری رکھی، پھر میرا دوسرا بچہ ہوا، اس کے بعد مجھے اپنے بچوں کی نگہداشت کی زیادہ فکر رہنے لگی، اسی لئے
میں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا”۔

سونارنی سینٹوز کے شوہر بھی وسطی جاوا سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنی اہلیہ کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔

سونارنی سینٹوز”شروع میں مجھے اپنی دکان کے کرائے کی فکر تھی، کیونکہ وہ شاپنگ سینٹر کافی مہنگا تھا، مگر میرے شوہر نے میری حوصلہ افزائی کی، انکا کہان تھا کہ اگر کاروبار کامیاب نہ بھی ہوا تو بھی وہ تمام کرایہ اور دیگر خرچہ ادا کردیں گے۔ تو مجھے رقم کی زیادہ فکر نہیں رہی کیونکہ میرے شوہر بھی کام کررہے تھے”۔

اب سونارنی کی اس فوڈ چین میں انڈونیشیاءبھر میں نو سو کے لگ بھگ افراد کام کررہے ہیں، وہ دیگر خواتین کو بھی اپنا کاروبار شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔

سونارنی “چھوٹے پیمانے پر آغاز کررہے ہیں، فوری طور پر کچھ بڑا اور مہنگا کام کرنے کا نہ سوچیں، چھوٹے اقدامات سے شروع کرکے اسے آگے بڑھائیں، اسی طرح آپ زیادہ کامیاب ہوسکتی ہیں”۔