Written by prs.adminMarch 30, 2014
Stand Against Nuclear Plant in India – بھارتی جوہری پلانٹ
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
وسطی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے رہائشی اپنے علاقے میں ایک بڑے جوہری پاور پلانٹ کی تنصیب کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، انھوں نے حکومت سے منصوبے کو ختم کرنیکا مطالبہ کیا ہے، اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
سینکڑوں قبائلی افراد ضلعمنڈلا میں جوہری پلانٹ کی تعمیر کیخلاف احتجاج کررہے ہیں، اس منصوبے سے علاقے کے ساٹھ ہزار افراد متاثر ہوں گے۔
جلد ہی اس علاقے کے چار سو خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں سے جانا پڑے گا، اس سے پہلے یہ لوگ 1980ءکی دہائی میں ایک اور حکومتی منصوبے برگی ڈیم کے باعث بے گھر ہوکر یہاں پہنچے تھے۔ناروٹیم ڈبی مقامی برادری کے سیکرٹری ہیں۔
ڈبی”ہم سے بہتر یہ بات کوئی نہیں سمجھ سکتا، ہم نے ملک کی ترقی کیلئے اپنا پانی، جنگل اور زمین سب دیدئیے، مگر حکومت ہمارے لئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی، اور اب وہ ہمیں ایک بار پھر اس جوہری پلانٹ کیلئے بے گھر کرنا چاہتی ہے”۔
رواں برس فروری میں عوامی دباﺅ کے بعد ضلعی انتظامیہ نے ایک عوامی سماعت کا انعقاد کیا، تاہم ایک گاﺅں چٹکا کی رہائشی میرا بائی کے مطابق عوامی سماعت درحقیقت ایک دھوکہ ثابت ہوئی، جو بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہوئی۔
میرا بائی”عوامی سماعت کا انعقاد پولیس کی حفاظت مین ہوا،چٹکا اور دیگر دیہات کے افراد اس سماعت کے باہر احتجاج کررہے تھے کیونکہ انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، حکام نے اجنبیوں کو شامل کرکے جعلی عوامی سماعت کا انعقاد کیا”۔
بھارتی حکومت 2050ءتک اپنی توانائی کی ضروریات کا پچیس فیصد حصہ جوہری توانائی سے حاصل کرنا چاہتی ہے، اس وقت بھارت کی چھ ریاستوں میں اکیس جوہری پلانٹس کام کررہے ہیں، تاہم جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے کوئی طویل المعیاد پالیسی موجود نہیں۔ لوکیش مالتی پر کاش ایک این جیشکشا ادھیکار منچ سے تعلق رکھتے ہیں۔
لوکیش”ان افراد نے واضح کردیا ہے کہ وہ صرف چٹکا نیو کلیئر پاور پلانٹ کے ہی نہیں بلکہ بھارت میں ہر جوہری پلانٹ کے مخالف ہیں، تو یہ جدوجہد مقامی سطح کی بجائے قومی سطح کی ہے”۔
احتجاج میں واپس چلتے ہیں،گورکھ پور گاﺅں کی دیوکی ٹھاکر جوہری پلانٹ پر خواتین کی تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔
ڈیوکی”ہم خواتین حکومت کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہم اس جوہری پلانٹ کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گی، چاہے ہمیں اسکی قیمت اپنی جانوں کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانا پڑے، ہمارے بچے کس طرح پلے بڑھے گے؟ اگر ہمیں اس طرح یہاں سے نکالا گیا تو وہ تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | 4 | 5 | 6 | |
7 | 8 | 9 | 10 | 11 | 12 | 13 |
14 | 15 | 16 | 17 | 18 | 19 | 20 |
21 | 22 | 23 | 24 | 25 | 26 | 27 |
28 | 29 | 30 | 31 |
Leave a Reply