New Bird Flu Strain Throws Spotlight on Asia’s Preparednessبرڈ فلو وائرس

چین میں برڈ فلو کی وباءایک بار پھر سر اٹھارہی ہے اور اب تک کئی اموات بھی ہوچکی ہیں، برڈ فلو کی نئی قسم نے اس بار چین پر حملہ کیا ہے، اسی بارے میں ماہرین طب کا انٹرویو سنتے ہیں آج کی رپورٹ میں

ایک دہائی قبل سارس یاسروو اکیوٹ رسپائریٹری سنڈروم نامی وباءنے طبی حکام کو پریشان کردیا تھا، یہ وباءجنوبی چین سے پھیلنا شروع ہوئی اور پھر یہ دیگر ممالک تک پھیل گئی، عالمی ادارہ صحت نے اس پر عالمی الرٹ بھی جاری کیا، اور اقوام متحدہ کے مطابق اس مرض کے 75 فیصد واقعات میں جانوروں سے انسانوں میں مرض منتقل ہوا، اب اسی مرض کی نئی قسم H10-N8 سامنے آئی ہے اور اس کے شکار تین ایسے افراد ہوئے ہیں، جو پولٹری کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر پیٹر ہار بی سنیئر کلینکل ریسرچ محقق ہیں، جو ویت نام میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے یونٹ کیساتھ وابستہ ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس نئے مرض کی نگرانی بہت اہم ہے۔

پیٹر ہار بی”ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ چھوت کا مرض ہے، جو اکثر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، تو ہم جانتے ہیں کہ اس سے پہلے انفلوائنزا وائرس کس طرح پرندوں یا دیگر جانوروں سے پھیلا، تو اب جو نیا فلو وائرس انسانوں کو شکار بنارہا ہے اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا”۔

اس نئے فلو وائرس کیلئے جنوبی مشرقی ایشیاءکو سب سے خطرناک خطہ قرار دیا گیا ہے، اور یہاں لائیواسٹاک اور لوگوں پر نظر رکھی جارہی ہے۔ تاہم آسیان ممالک کے درمیان سستے ٹریول ٹکٹس اور ویزہ فری ہونا ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، جبکہ دیہات سے شہروں میں لوگوں کی منتقلی کا عمل بھی مسئلے کا ایک حصہ ہے۔ ڈاکٹرپیٹر ہار بی زور دیتے ہیں کہ اس نئے حیاتیاتی خطرے پر قابو پانے کیلئے صلاحیت بڑھانی ہوگی۔

ڈاکٹر پیٹر ہار بی”جب ایک بار وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوجاتا ہے تو پھر یہ بہت تیزی سے پھیلنا لگتا ہے”۔

سوال” کیاسارس کی وباءکے بعد اس خطے میں اس طرح کی صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت میں بہتری آئی ہے یا نہیں؟

ڈاکٹرپیٹر ہار بی”جی ہاں بالکل، اب حالات پہلے سے بہتر ہیں، آپ سارس اور موجودہ انفلوائنزا کی وباءکا چین میں جائزہ لیں، تو حالات بالکل مختلف نظر آئیں گے، این 9ایچ 7 انفلوائنزا کے مسئلے کو چین نے تیزی سے شناخت کیا، اس کی تحقیق کی اور خطے و عالمی طبی حکام کو اس سے آگاہ کرتے ہوئے، دیگر ممالک میں بھی اس مرض کی شناخت کیلئے مدد فراہم کی، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی بہت بہتری آئی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مزید بہتری کی گنجائش ابھی بھی باقی ہے اور اور ایسے غریب ممالک جہاں کی آبادی بہت زیادہ ہے وہاں بھی معاونت فراہم کئے جانیکی ضرورت ہے”۔
سوال”کیا اس حوالے سے بین الاقوامی مالی معاونت بھی اہمیت رکھتی ہے؟

ڈاکٹر پیٹر ہار بی”جی ہاں یقیناً، عالمی برادری اور مقامی سطح پر ملکر ہی اس وباءپر موثر ردعمل ظاہر کیا جاسکتا ہے، اور اس حوالے سے مہارت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر
کیلئے ہمیشہ مالی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے”۔