Kashmir’s First All-girl Rock Band Quit Following Fatwa – کشمیری گرلز بینڈ

مختصر مگر بہترین کیرئیر کے بعد کشمیری لڑکیوں کے پہلے راک بینڈ نے موسیقی کی دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان لڑکیوں نے یہ فیصلہ اس فتویٰ کے بعد کیا جس میں ان کی گلوکاری کو غیراسلامی قرار دیا گیا تھا۔ اس فتویٰ پر کشمیر کے اندر اور باہر تنقید بھی کی جارہی ہے،

سولہ سالہ انیقہ بہت اپ سیٹ ہے۔

انیقہ” ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کشمیری عوام ہم سے خوش نہیں، مگر اب ہمیں یہ بات معلوم ہوچکی ہے، اسی وجہ سے ہم نے موسیقی چھوڑ دی، اس طرح کی چیزیں کشمیر میں نہیں ہوسکیتیں، کیونکہ یہ اخلاق اور ہماری روایات کے خلاف ہیں”۔

انیقہ اس تین رکنی کشمیری گرلز بینڈ کی رکن تھی جسے پراگاش کا نام دیا تھا، اس گروپ کی لڑکیوں نے مقامی عالم بشیر الدین کی جانب سے ان کی موسیقی کو غیراسلامی قرار دینے پر یہ کیرئیر ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

بشیرالدین” اگر وہ یہ کام کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ گھر میں اپنے خاندان کے سامنے کریں، جبکہ عوام کے سامنے اس طرح کی سرگرمیاں ان کیلئے اچھی نہیں۔ وہ اپنے جسموں کو اجنبی نظروں کے سامنے نمایاں کرتی ہیں، جبکہ اس سے متعدد افراد کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی لئے میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں، برقعہ پہنے، اور اعلیٰ شخصیت بناکر اس طرح فحش سرگرمیوں سے دور رہیں”۔

پراگاش نامی یہ بینڈ گزشتہ برس تشکیل دیا گیا تھا اور اسے کشمیر میں لڑکیوں کا پہلا راک بینڈ کا اعزاز ملا، یہ لڑکیاں سرینگر میں موسیقی کے ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کرتے ہی لوگوں کی نظروں میں آگئی تھیں، ہما نذیر اس بینڈ کی مرکزی گلوکارہ تھیں۔

ہمانذیر” جب ہم نے پہلی بار مقابلے میں حصہ لیکر لڑکوں کا سامنا کیا تو ہم بہت پرجوش تھے۔ ہمارا بینڈ لڑکیوں پر مشتمل واحد بینڈ تھا، ہم اپنی صلاحیت دکھانا چاہتے تھے اور ہم چاہتے تھے کہ دیگر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں متاثر کرسکے تاکہ وہ بھی اپنی صلاحیت دکھانے کیلئے آگے آسکیں”۔

اس کامیابی سے اس بینڈ کے چاپنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی مگر اس کے ساتھ کچھ دشمن بھی بن گئے تھے۔ ایک گروپ نے آن لائن مہم چلائی جس میں اس بینڈ کی حوصلہ شکنی کیلئے اقدامات پر زور دیا گیا۔ اس گروپس نے نفرت آمیز پیغامات بھیجیں اور تشدد کی بھی دھمکیاں دیں۔ پولیس اب ان دھمکیوں کیخلاف تحقیقات کررہی ہے۔

ان لڑکیوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے گانا کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم انیقہ کا کہنا ہے کہ ہم فتویٰ کے خلاف نہیں لڑسکتے۔

انیقہ” اب بات اسلام کی آگئی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ کام غیراسلامی ہے، مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ واقعی یہ غیراسلامی ہے یا نہیں، تاہم مفتی اعظم نے ایسا کہا ہے اور وہ مذہب کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں، اسی لئے ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ وہ قابل احترام بزرگ ہیں، تمام کشمیری ان کا احترام کرتے ہیں، اسی لئے ہم نے موسیقی چھوڑنے کا فیصلہ کیا”۔

کشمیر میں مختلف میلوں میں خواتین کے رقص اور موسیقی کی تاریخ کافی پرانے ہے، حالانکہ ماضی میں بھی علمائے کرام اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں، چند خواتین گروپس بھی حالیہ فتویٰ کی حمایت کررہے ہیں۔ آسیہ اندرابی دختر ملت نامی کشمیر کے سب سے بڑا خواتین گروپ کی سربراہ ہیں۔

آسیہ” چاہے یہ 21 ویں صدی ہو یا 1000 ویں صدی، اسلام قیامت تک اپنی جگہ پر برقرار رہے گا۔ اس میں کوئی اضافہ یا تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہ بدقسمتی ہے کہ یہ معصوم بچیاں اس کام کا حصہ بن گئیں، مگر اب اللہ کا شکر ہے کہ وہ بروقت اس سے تائب ہوگئیں۔ اگر انہیں آگے بڑھنے کی اجازت ملتی تو ان کی قسمت بھی ویسے ہی ہوتی جیسی اس شعبے میں دیگر خواتین کی ہے”۔

تاہم اس بینڈ کو کافی حامیت بھی حاصل ہے،سرینگر کی دس ویں جماعت کی طالبہ صائمہ بھی اس گروپ کی پرستار ہے۔

صائمہ” کیا یہ اصول صرف لڑکیوں پر لاگو ہوتا ہے؟ لڑکیاں اور لڑکوں کیساتھ مساوی سلوک ہونا چاہئے، درحقیقت اگر لڑکیاں تمام شعبوں میں لڑکیوں سے آگے نہیں تو ان کے برابر ضرور ہیں۔ تو آکر ہم صرف لڑکیوں کو ہی پابند کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، یہ کھیلی ناانصافی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے”۔

متعدد افراد نے اس فتویٰ کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔سنجے روئے ایک تعلیمی فورم کے ڈائریکٹر ہیں۔

سنجے روئے” ہم بھارت میں رہتے ہیں جہاں تمام صنفوں کو آزادی حاصل ہے، ان کشمیری لڑکیوں پر بہت زیادہ دباﺅ ڈالا گیا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا بینڈ ختم کردیا، میرے خیال میں ہر شخص کو کھڑے ہوکر انکا ساتھ دینا چاہئے اور ان لڑکیوں کو اپنی پسند کا کام کرنے کا موقع دینا چاہئے”۔

معروف بالی وڈ کمپوزر نے ان لڑکیوں کو ممبئی آنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ موسیقی کی دنیا میں رہ سکیں، تاہم ان لڑکیوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت بھی ان لڑکیوں کی حمایت کیلئے تیار ہے۔ عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ ہیں۔

عبداللہ” ہماری ثقافت گانون کے گرد گھومتی ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر ان لڑکیوں کو اس کی اجازت کیوں نہیں، اگر یہ لڑکیاں موسیقی کا کیرئیر جاری رکھا چاہتی ہے اور ان کے خاندانوں کو سیکیورٹی درکار ہے تو ہم ایساک رنے کیلئے تیار ہے، اس سلسلے میں ریاست ہر ممکن اقدامات کرے گی”۔

تاہم انیقہ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے حوصلہ ہار دیا ہے۔

انیقہ” ان لوگوں کی حمایت اچھا امر ہے مگر اس فتویٰ کے بعد ہم اپنا کام جاری نہیں رکھنا چاہتی، اب یہ ہمارے کوئی اہمیت نہیں رکھتا”۔