(India’s Mobile Phone News Agency)بھارتی موبائل فون نیوز ایجنسی

 

بھارت کے قبائلی علاقہ جات میں لوگوں کو خبروں تک محدود رسائی حاصل ہوتی ہے، ٹی وی اور اخبارات کی محدود رسائی اور ریڈیو پر انتہائی سخت پابندی کے باعث یہاں کے رہائشی تازہ خبروں سے محروم رہتے ہیں،مگر اب ان علاقوں میں پہلی بار موبائل فونز کے ذریعے آن لائن نیوز سروس فراہم کی جارہی ہے۔

Janardan Mahto ایک شہری صحافی ہیں۔

 (male) Janardan Mahto “ہمارے گاﺅں میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کوئلے کی کان کے باعث خشک یا ہماری پہنچ سے دور ہوچکے ہیں۔ اب لوگوں کو دو یا تین کلومیٹر دور جاکر پانی لانا پڑتا ہے۔ دریائے Damonar قریب ہی بہتا ہے مگر کان کن کمپنی نے دریا کے پانی تک ہماری رسائی ختم کردی ہے”۔

Ketulia نامی گاﺅں سے تعلق رکھنے والے Janardan Mahto نے یہ رپورٹ CGNet Swara پر ارسال کی تھی۔اس نیوز ایجنسی کو وسطی بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کی آواز بھی کہا جاتا ہے۔Janardan Mahto نے اس رپورٹ کے ساتھ اپنا فون نمبر بھی دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ حکومت ان کے گاﺅں کی مدد کرے گی۔ Janardan Mahto کی طرح کے سینکڑوں شہری صحافی وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں اس طرح کی رپورٹس اس نیوز ایجنسی کو بھیجتے ہیں۔ تاہم سی جی نیٹ سویرا کوئی ریڈیو، ٹی وی چینیل یا اخبار نہیں، بلکہ یہ ایک موبائل فون نیوز سروس ہے۔یہ سروس اس طرح کام کرتی ہے۔

سب سے پہلے تو لوگ ایک مخصوص نمبر پر مس کال دیتے ہیں،جس کے چند سیکنڈ بعد انہیں سی جی نیٹ کی جانب سے فون کیا جاتا ہے۔جسکے بعد شہریوں کی رپورٹ کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، ایسے بیشتر شہری صحافی اپنے علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس ارسال کرتے ہیں۔ان رپورٹس میں پولیس کی بربریت، زمینوں پر قبضے اور کان کن کمپنیوں وغیرہ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ایک بار جب رپورٹ ریکارڈ ہوجاتی ہے تو ایجنسی کا عملہ ان حقائق کی جانچ پڑتال کرتا ہے، اگر اطلاعات درست ہوں تو اسے سی جی نیٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔ اس نیوز سروس میں صرف شہریوں کی ہی رپورٹس ریکارڈ نہیں ہوتیں، بلکہ اس کا اپنا عملہ بھی خبریں تیار کرتا ہے۔ اس سروس میں چار زبانوں میں خبریں ریکارڈ کرائی جاسکتی ہیں، سی جی نیٹ وسطی بھارت میں مقامی زبانوں میں خبریں فراہم کرنے والی پہلی ایجنسی ہے۔ اسکی بنیاد سابق صحافیShubhranshu Choudhary نے رکھی تھی۔وہ بتارہے ہیںکہ کس طرح وبائل فونز نے دنیا سے کٹی آبادیوں کیلئے اطلاعات تک رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔

 (male) Shubhranshu Choudhary “وسطی بھارت کے قبائلی عوام کا باہر کی دنیا سے رابطہ بہت محدود ہے۔ انہیں بجلی میسر نہیں، وہاں شاہراﺅں کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم وہاں موبائل فونز دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی قبائلی عوام کیلئے اطلاعات کے تبادلے اور باہر کی دنیا سے رابطہ کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے”۔

ان قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی ان پڑھ اور غریب ہے، چھتیس گڑھ کا رہائشی ہونے کے باعث Shubhranshu Choudhary کو معلوم تھا کہ قبائلی عوام کو خبروں تک رسائی حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال قبل انھوں نے سی جی نیٹ Swara کا آغاز کیا، انھوں نے مقامی افراد کو شہری صحافی بننے کی تربیت دی اور مختلف مسائل پر رپورٹس دینے کا ماہر بنایا۔اس علاقے کے 65 فیصدافراد کے پاس موبائل فونز موجود ہیں، اسی وجہ سے یہ نیوز سروس کامیاب ہوسکی ہے۔ Shubhranshu Choudhary مزید بتارہے ہیں۔

 (male) Shubhranshu Choudhary “یہ بھارت میں اس طرز کی پہلی نیوز سروس ہے، ہمارے پاس شہری صحافیوں کا ایک منظم گروپ موجود ہے، ہم جدید ٹیکنالوجی اور سی جی نیٹ کے پلیٹ فارم کے ذریعے اس علاقے میں صحافت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔متعدد تجربات کے بعد ہم موبائل فونز پر دنیا کا پہلا ریڈیو چلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قبائلی عوام کا باہر کی دنیا سے رابطہ محدود ہے، موبائل فون ہی انہیں خبریں پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے”۔

دو سال کے دوران سی جی نیٹ کو رپورٹس دینے والے یا سننے والے افراد کی ساٹھ ہزار سے زائد فون کالز موصول ہوئیں۔ اب تک اس کی ویب سائٹ پر نو سو سے زائد رپورٹس شائع کی جاچکی ہیں، اور متعدد خبروں کو بھارت کے مرکزی میڈیا نے بھی اپنے اخبارات یا ٹی وی چینیلز پر چلایا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس ایک معذور شخص کو حکومت کے دیہی روزگار منصوبے کا حصہ بننے کے باوجود تنخواہ نہ ملنے کی رپورٹ کو بھارتی میڈیا نے بھی اچھالا۔سماجی کارکن اور شہری صحافی راکیش رائے نے یہ رپورٹ تیار کی تھی۔ وہ خوش ہیں کہ ان کی رپورٹ کے بعد Pitbasu Bhoi نامی اس معذور شخص کو تنخواہ ادا کردی گئی۔

راکیش(male) “ہمیں اب سرکاری حکام کی جانب سے بھی ردعمل مل رہا ہے، ان میں کچھ موبائل فونز پر ہماری رپورٹس سنتے ہیں یا انٹرنیٹ پر پڑھ کر اقدامات کرتے ہیں۔ کچھ رپورٹس کو تو مرکزی میڈیا میں شائع کیا گیا، ہم اس چیز کو ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں”۔

سی جی نیٹ کو امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او International Center for journalists سے فنڈز ملتے ہیں، جس سے رپورٹس دینے والے افراد کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اس سروس کے آغاز میں ٹیلیفونز کی تعداد بہت کم تھی، مگر اب روزانہ تین سو سے زائد فون کالز آرہی ہیں۔Kangi گاﺅں سے تعلق رکھنے والے Bineshwar Nayak اپنے علاقے میں سڑکوں کے خراب نظام پر رپورٹ ریکارڈ کرارہے ہیں۔

 (male) Bineshwar Nayak “اس علاقے کے پانچ دیہات میں پندرہ سو افراد رہائش پذیر ہیں اور ہم برسوں سے حکومت کی جانب سے یہاں سڑکوں کی تعمیر کے منتظر ہیں، تاکہ ان دیہات کو آپس میں جوڑا جاسکے۔ اس سے پہلے ہمارے گاﺅں میں اسکول نہیں تھا، جواب موجود ہے، تاہم سڑکیں نہ ہونے کے باعث نواحی دیہات کے بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ یہاں کے خاندانوں کے پاس شادی کیلئے رشتے نہیں آتے۔ سڑکیں نہ ہونا یہاں کی ترقی کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے”۔

سی جی نیٹ کی جانب سے اپنے شہری صحافیوں کی تربیت کیلئے کلاسز کا انعقاد اکثر ہوتا ہے۔ تاہم چند شہری صحافی بغیر کسی تربیت کے بھی اپنی رپورٹس بھیجتے ہیں۔ Shubhranshu Choudhary اپنی اس سروس کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں اور اسے ملک بھر میں استحصال کے شکار افراد کی آواز بنانا چاہتے ہیں۔

 (male) Shubhranshu Choudhary ” ہمیں اب قبائلی علاقوں سے متعدد خبریں مختلف مقامی زبانوں میں مل رہی ہیں، یہ تو ابھی آغاز ہے، ہم اس سلسلے کو محدود کرنے کے خواہشمند نہیں،ہم اس ٹیکنالوجی کو دیگر علاقوں میں بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ میڈیا قبائلی عوام اور غیر قبائلی افراد کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر علاقوں کے غریب افراد کے درمیان ایک پل کا کام کرسکتا ہے”۔