Irrawaddy Dolphins Under Threat from Electrofishingبرمی ڈولفنز کی نسل کو خطرہ

جنوب مشرقی ایشیاءکے دریائے اراﺅ ڈی میں موجود ڈولفنز کی نسل خطرے سے دوچار ہے، اس وقت صرف چھ ہزاراراﺅ ڈی ڈولفنز ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ

مقامی ماہی گیر کا اراﺅ ڈیدریا کی ڈولفنز سے رشتہ بہت پرانا ہے، کشتی کے چپوﺅں کی آواز پر دونوں اطراف منڈلانے والی ان مچھلیوں کے کرتبوں سے ہی ان ماہی گیروں کے دن کا آغاز ہوتا ہے، یہ ڈولفنز ہی مچھلیوں کے غول کے بارے میں ماہی گیروں کو اشارہ دیتی ہیں کہ انہیں کس جگہ جال ڈالنا چاہئے، اس کے بدلے میں انہیں کسی انعام سے نوازا جاتا ہے۔

سان لیون”ہم ان ڈولفنز کو اپنا بھائی کہتے ہیں، ہم لوگ ملکر کام کرتے ہیں، اسی لئے ہم نے انہیں یہ نام دیا ہے”۔
مگر برسوں تک ان ماہی گیروں کیساتھ ملک کام کرنے والی یہ ڈولفنز اچانک غائب ہونے لگیں، جس کی وجہ الیکٹرو فشنگ ہے، یعنی ماہی گیروں کی کشتیوں میں جنریٹرز کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے، جس سے کرنٹ پانی میں چھوڑا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف مچھلیوں کو کشتی کی طرف آنے کی ترغیب دی جاتی ہے، مگر ساتھ ساتھ یہ ڈولفنز کو مفلوج بھی کردیتا ہے اور وہ ڈوب کر ہلاک ہوجاتی ہیں۔

سان لون”ڈولفنز بہت عقلمند ہوتی ہیں، انکا دماغ انسانوں جیسا ہی ہوتا ہے، اب وہ بجلی کے جھٹکوں سے ہوشیار ہوگئی ہیں، اگر ہم ڈولفنز کیساتھ ملکر شکار کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں برقی جھٹکوں کا استعمال ترک کرنا ہوگا”۔

میانمار ٹورسٹ گائیڈ ایسو سی ایشن کا ماننا ہے کہ سیاحت صورتحال میں بہتری لاسکتی ہے۔

ایسوسی ایشن نے ٹورگائیڈز اور مقامی انتظامیہ کا ایک اسٹڈی گروپ قائم کیا، تاکہ ڈولفنز کے تحفظ کا کام کیا جاسکے۔ برقی جھٹکوں سے شکار اگرچہ غیرقانونی ہے مگر متعدد ماہی گیر اس پر عمل کرتے ہیں۔کیاﺅ ہلا تھین ایک انیمل کنزر ویشن گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیاﺅ ہلا تھین”اس علاقے میں ہم ہر ماہ دو دفعہ پٹرولنگ کرتے ہیں، ہم ڈولفنز کی مدد کرتے ہیں، اب ہم دریا کے کنارے پر تعلیمی پروگرامز بھی چلارہے ہیں”۔
اس علاقے میں بڑے ترقیاتی منصوبے بھی دریا اور ڈولفنز کیلئے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں، مقامی ماہی گیروں، سیاح اور انتظامی اہلکاروں کو شکار اور جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے تعلیم دیکر ماحولیاتی گروپس کو توقع ہے کہ بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ون زاﺅ او میانمار ٹورسٹ گائیڈز ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتے ہیں۔

ون زاﺅ او”ساٹھ سے زائد مقامی ٹور گائیڈز، ینگون کے بارہ اورباگان کے دو ٹور گائیڈز دریا اور ڈولفنز کے بارے میں جاننے کیلئے جمع ہوئے انہیں ڈولفنز کے ماحول کے بارے میں سیکھانا ہے”۔

ماہی گیر جیسے سان لون کا کہنا ہے کہ ڈولفنز کے غائب سے مچھلی کے شکار میں بھی کمی آئی ہے۔
سان”ماضی میں ہمارے روزگار کا انحصار ڈولفنز پر تھا، مگر اب ہماری آمدنی کم ہوتی جارہی ہے اور ہم ڈولفنز پر انحصار نہیں کرسکتے، اب ہمیں اپنے طریقے سے شکار کرنا پڑتا ہے”۔

ٹِن ٹن ایک ٹور گائیڈ ہیں۔

ٹِن ٹن”میں نے اپنی پوری زندگی اس دریا کے قریب گزاری ہے، مجھے یاد ہے کہ جب دریائی طاس پر جنگلات موجود تھے تو یہاں بڑی تعداد میں گینڈے تھے، مگر اب تو مجھے جنگل ہی نظر نہیں آتا گینڈے کہاں سے آئیں گے”۔