(Tropical Reefs on the Brink) سمندری مونگے خطرے کی زد میں

(Tropical Reefs on the Brink) سمندری مونگے خطرے کی زد میں

دنیا کی 85 فیصد مونگوں کی چٹانیں یا خطرے کی زد میں ہیں، جسکا مطلب ہے کہ مچھلیوں کی ہزاروں اقسام کے رہائشی ٹھکانے ختم ہونے والے ہیں۔ان چٹانوں کو سب سے بڑا خطرہ ایک نئے طریقے cyanide fishing سے لاحق ہے، جس سے بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں تو پکڑی جاتی ہیں، مگر مونگے بھی مر جاتے ہیں۔انڈونیشیاءمیں اس طریقہ کار پر سب سے زیادہ عملدرآمد ہورہا ہے، تاہم اب اس کی روک تھام کیلئے کام ہورہا ہے

مونگوں کی چٹانوں کی تکون جسے Coral Triangle کہا جاتا ہے، میں دو ہزار سے زائد اقسام کی مچھلیاں اور پانچ سو سے زائد اقسام کے مونگے موجود ہیں۔اسے کئی بارے سمندری آمیزون(Amazon) بھی کہا جاتا ہے، یہ چٹان چھ ممالک انڈونیشیائ، ملائیشیائ، فلپائن، مشرقی تمور، Solomon Islands اور Papua New Guinea میں پھیلی ہوئی ہے۔ان چٹانوں سے کروڑوں افراد کا روزگار وابستہ ہے، تاہم ان میں سے بیشتر اپنے روزگار کے وسیلے کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انڈونیشین ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کیلئے سائنائڈ زہر استعمال کرتے ہیں، جس سے انہیں بڑی تعداد میں مچھلیاں پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ Adi Surya، انڈونیشین فشرفوک سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔

 (male) Adi Surya “انڈونیشیاءکے مشرقی حصے میں مونگوں کی چٹان کا کافی بڑا حصہ پھیلا ہوا ہے، یہاں جال کی مدد سے مچھلیاں پکڑنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں ماہی گیر شکار کیلئے سائنائڈ کا استعمال کرتے ہیں”۔

تاہم ماہی گیری کا یہ طریقہ ہی مونگوں کی چٹان کیلئے خطرہ نہیں، بلکہ آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ بھی بڑے خطرات میں شامل ہیں، تاہم زہریلی ماہی گیری فی الحال سب سے بڑا خطرہ ہے۔انڈونیشیاءزندہ مچھلیوں کی برآمد کی عالمی منڈی کے بڑے حصے پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ ہر سال انڈونیشیاءسے مونگوں کی چٹان سے تیس ملین ٹن مچھلی زندہ پکڑ کر برآمد کی جاتی ہے۔مچھلیوں کو تازہ رکھنے کیلئے زندہ پکڑا جاتا ہے۔سائنائڈ سے مچھلیاں مرتی نہیں بلکہ بے ہوش یا ساکت ہوجاتی ہیں۔ مونگوں کی چٹان سے پکڑے جانے والی مچھلیوں کو اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے اور انہیں خاص مواقعوں پر پکا کر مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔اس مچھلی کی طلب میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈونیشیاءجیسے ممالک میں بہت زیادہ شکار کیا جارہا ہے، تاہم ماحولیاتی سائنسدان Dirhamsyah کا کہنا ہے کہ شکار کے باعث مونگوں کی چٹان تباہ ہورہی ہے۔

 (male) Dirhamsyah “ماہی گیر تاحال سائنائڈ استعمال کررہے ہیں، اس طریقہ شکار کیلئے چار غوطہ خوروں کا گروپ زیرآب آکر چٹان میں سائنائڈ پھیلاتا ہے۔ یہ گروپ سمندر میں پچاس میٹر گہرائی تک جاتا ہے، اس طرح وہ مچھلیاں تو آرام سے پکڑ لیتے ہیں تاہم مونگوں کی چٹان کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں”۔

اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے گزشتہ سال انڈونیشین وزارت زراعت نے مچھلی کی ایک قسم Napoleon کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی، یہ مچھلی مارکیٹ میں بہت زیادہ مقبول ہے، تاہم ماہی گیروں نے اس پابندی کی پروا نہیں، کیونکہ Napoleon مچھلی عالمی سطح پر فی کلو ڈیڑھ سو ڈالر میں فروخت ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس پر منافع بہت زیادہ ہے۔Elizabeth Wood عالمی ادارے Marine Conservation Society کی مشیر ہیں۔ یہ ادارہ مونگوں کی چٹانوں اور دیگر بحری ماحولیات کو تحفظ دینے کی جدوجہد کررہا ہے۔ ایلزبتھ کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی سپلائی کرنے والے ممالک جیسے انڈونیشیاءاور فلپائن کو سائنائڈ کے استعمال پر سخت قوانین کا اطلاق کرنا چاہئے۔

ایلزبتھ(female) “ماہی گیروں کو روکنا کافی مشکل کام ہے، تاہم اب نیا سائنائڈ ٹیسٹ تیار ہوا ہے جو کہ اس طریقہ شکار کو روکنے کیلئے کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے سائنائڈ کے آثار ملنے پر برآمد کنندہ ممالک اس غیرقانونی طریقے پر عمل کرنے والے ماہی گیروں کے خلاف سخت کریک ڈاﺅن کرکے انہیں گرفتار کرسکتے ہیں”۔

تاہم ٹیسٹ یا پابندیاں ہی کافی نہیں، سائنائڈ کے علاوہ بھی ایسا طریقہ کار موجود ہے جس کے ذریعے مچھلیوں کو بغیر ہلاک کئے پکڑا جاسکتا ہے۔ Oceanology Research Center کے سائنسدان Suharsono کا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے لونگ کا تیل مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

 (male) Suharsono “اس تیل کا اثر سائنائڈ جیسا ہی ہوتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انڈونیشیاءمیں لونگ کے تیل کی پیداوار زیادہ نہیں، تاہم اگر طلب بڑھے گی تو اس کی سپلائی میں بھی اضافہ ہوگا”۔

اس مسئلے کے کا ایک اور حل ہانگ کانگ یونیورسٹی کی بحری ماہر Yvonne Sadovy بتارہی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ مچھلی استعمال کرنے والے صارفین کو سائنائڈ سے کئے جانے والے شکار کے خلاف کیا جائے۔

 (female) Yvonne Sadovy ” بیشتر افراد سمندر کو اہم ضرور مانتے ہیں لیکن انہیں سمندر کو لاحق مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔ تاہم یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صورتحال بہتر بنانے کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تاہم ان کا خیال ہوتا ہے کہ سمندر میں مچھلیاں بھری ہوئی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ ہمیں عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہوگی، تاکہ انہیں اصل حقیقت معلوم ہوسکے”۔