Honour Killings غیرت کے نام پر قتل

محبت کانچ کی گڑیا۔۔۔۔فضاﺅں میں کسی کے ہاتھ سے گر کر چھوٹ جائے تو۔۔۔۔؟
محبت زہر ہے یا اَمرت،ملنے کا نام ہے یا بچھڑ جانے کا۔۔۔زندگی ہے یا موت۔۔۔اِس کا فیصلہ اَب تک کون کر سکا ہے۔۔۔۔
جہاں غیرت کے نام پرخون کی ندیاں بہہ جائیں، جہاں برادری سے باہر رشتے جوڑنے والوں کی سزا موت قرار دی جائے اور جہاں رسم ورواج کی صلیب نوجوان نسل کو اُٹھانی پڑے۔۔۔وہاں عزت اور محبت کے مابین چھِڑی جنگ کو ختم کرنا آسان نہیں۔۔
رحیم یار خان چک چھیالیس کی رہنے والی فرزانہ کی کہانی بھی گزشتہ کہانیوں سے مختلف نہیں۔۔جس کا آغاز سنہرے سپنوںسے ہوا اور انجام۔۔۔موت پر !
فرزانہ بی بی کا جرم تھا۔۔غیر برادری سے تعلق رکھنے والے سعید کو پسند کرنا،جسکے ساتھ شادی کی سب سے زیادہ مخالفت اُس کے والد صاحب نے کی۔۔۔دونوں نے بلآخر گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔۔لیکن محبت کی اِس کہانی کا انجام یہیں نہیں ہوا۔۔ایک روز فرزانہ کا باپ اپنی بیٹی کے نئے گھر کا پتہ ڈھونڈتا اُس تک جا پہنچا، اور اُسے زبر دستی گھر واپس لے آیا ۔۔۔اور یہیں سے فرزانہ کی بدقسمتی کا آغاز ہوا، سعید نے اپنے سسر سے رابطہ کر کے اُن سے صلح کی بہت کو شش کی،لیکن یہ تو غیرت اورعزت کا معامہ تھا۔۔۔تھک ہار کر سعید نے کورٹ سے رجوع کیا اور جس روز عدالت میں فرزانہ اور سعید کے کیس کی سُنوائی تھی اُس سے ایک روز قبل باپ نے اپنی بیٹی سے عمر بھر کے لاڈ پیار کے بدلے میں محبت سے دستبرداری مانگ لی۔۔بیٹی نہ مانی اور وہ دن فرزانہ کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔۔۔سعید کا کہنا ہے کہ فرزانہ نے آخری دم تک اُسکا ساتھ نبھایا۔۔۔

درست کون ہے؟ وہ جس نے خاندان کی عزت پر چند روزہ محبت کو ترجیح دی یا وہ جس نے غیرت پر بیٹی کی محبت کو قربان کیا۔۔
رسم ورواج اور چاہت کے مابین صدیوں سے چھِڑی اِس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا؟ اسکا فیصلہ آج تک کوئی نہیں کر سکا۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک والدین نوجوانوں کو روایات کی زنجیروں میں جکڑ کر انھیں بغاوت پر اُکساتے رہیں گے اور کب تک نوجوان جوڑے گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے بعد اخبارات کی ہیڈ لائنز بنتے رہیں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔