Girls School in Tribal Areas گرلز اسکولز کی تبا ہی
بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتا ہے اور ایک پڑھی لکھی اورجدید علوم سے آشنا ماں ہی اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنا سکتی ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوںکو بارودی مواد اور بموں سے اڑانے کا سلسلہ جاری ہے،ان اسکولوں کی تباہی میں کس کا ہاتھ ہے اور وہ ایسا کیوںکر رہے ہیں اس بارے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے۔
تباہ کئے جانے والے اسکولوں کی دوبارہ تعمیر,ان کی حفاظت اور لڑکیوں کے منقطع ہونے والے تعلیمی سلسلے کو بحال کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں ،اس بارے میں میاں افتخار حسین کہتے ہیں۔
دوسری جانب مقامی صحافی شاہنواز مہمند کا کہنا ہے کہ تباہ کئے جانے والے اسکولوں کی دوبارہ تعمیر سست روی کا شکار ہے ،حکومت اور مختلف این جی اوز کی جانب سے لڑکیوں کے لئے خیمہ اسکول فراہم کئے گئے ہیںجہاں ان کو مناسب سہولیات بھی حاصل نہیں ۔
صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تباہی سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کا منفی تاثر ابھر رہا ہے،جس کو ختم کرنے اور لڑکیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے نہایت سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،اور تبھی ممکن ہے جب ہم آپس میں اتحاد اور اتفاق رکھیں اور خواتین اور لڑکیوں کی دنیاوی تعلیم کو بھی ان کے لئے لازمی سمجھتے ہوئے اس سے ان کو روشناس کراےا جائے۔