(Celebrating the Mekong River) دریائے میکانگ کا جشن

 

دریائے Mekong کے کناروں پر رہنے والے افراد اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور آج کل ایک جشن منانے میں مصروف ہیں۔ ایک سفری نمائش Stories of the Mekong کا انعقاد سوئیڈن میں ہوا ہے، جہاں اس دریا کے ارگرد بسنے والے افراد کی زندگیوں کا احاطہ کیا گیا ہے

یہ نمائش Swedish Ethnographic museum میں جاری ہے۔ اس نمائش کیلئے پانچ برس سے تیاری کی جارہی تھی اور اس کیلئے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے مختلف اداروں نے بھی تعاون فراہم کیا ہے۔ اس نمائش میں دریائے Mekong کے ارگرد بسنے والے ممالک کی ثقافت کو دکھایا جارہا ہے۔لاﺅس، ویت نام اور کمبوڈیا دریائے Mekong کو زندگی کا دریا بھی کہتے ہیں، اس بات کا احساس اس نمائش کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔

اس نمائش میں ان تینوں ممالک میں دریائے Mekong کی موجودہ صورتحال کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اس دریا کے ارگرد بسنے والے نو افراد کی کہانیوں کو یہاں دکھایا گیا ہے، ان میں ماہی گیر، کپڑے بننے والے اور گھاس کاٹنے والے بھی شامل ہیں۔ ان سب کی تصاویر، آوازیں اور دیگر مواد نمائش میں رکھا گیا ہے۔ان کہانیوں میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح موجودہ ترقی یافتہ عہد نے دریائے Mekong اور قدرتی مناظر کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

Kam Phong لاﺅس سے تعلق رکھتی ہیں، یہ کپڑا بننے کا کام کرتی ہیں۔ وہ بتارہی ہیں کہ کس طرح قدرتی وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ سستی مصنوعات کی مانگ نے اس خطے کی پانچ ہزار سالہ پرانی روایات کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

اس نمائش میں اس دریا کے گرد آباد قبائلی برادریوں کو لاحق خطرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ کمبوڈیا کی برادری Champ

مسلمان ہیں، Knour Toum اس برادری کے مذہبی رہنماءہیں۔وہ فکر مند ہیں کہ آنے والے وقتوں میں ان کی برادری کی زبان معدوم نہ ہوجائے۔ نمائش میں ایسی تصاویر کو رکھا گیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ Knour Kay Toum مقامی بچوں کو اپنی زبان سیکھا رہے ہیں۔

یہ نمائش اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہاں تحریری مواد کی بجائے آوازوں، تصاویر اور ان ممالک کی روایتی خوشبویات کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ کمبوڈین ماہر تعلیم Kaylan Sann دریائے Mekong کے گرد آباد افراد کی زندگیوں کے بارے میں نمائش میں آنے والے افراد کو بتارہی ہیں۔

 (female) Kaylan Sann “میں یہاں آنے والے افراد کا جائزہ لے رہی ہوں، اور یہ دیکھ رہی ہوں کہ کس طرح ہماری کہانیاں ان افراد کو متاثر کررہی ہیں۔ اس نمائش میں موجود اشیاءکے ذریعے یہ افراد ہمارے خطے کو چھو سکتے ہیں، محسوس کرسکتے ہیں، سونگھ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، یہ ایک اچھا تجربہ ہے”۔

نمائش میں زیادہ مہنگے نوادرات نہیں رکھے گئے بلکہ روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاءبھی یہاں موجود ہیں۔ Kaylan Sann کا کہنا ہے کہ ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھنا کافی مشکل کام تھا۔

 (female) Kaylan Sann “جب میں اس کام میں شامل ہوئی، تو ہم نے اسے کرنے کیلئے بات چیت کی، کئی بار ہم میں اختلاف ہوا اور ایک دوسرے پر غصہ ہوئے، مگر پھر مل کر کام کرنے لگے۔ ہم نے تبدیلیوں پر کام جاری رکھا اورہنوئی میںاس نمائش کا آغاز ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ میری محنت کا ثمر مل گیا ہے”۔

اب تک ساڑھے تین لاکھ افراد اس نمائش کو دیکھ چکے ہیں، جو ہنوئی، لاﺅس، کمبوڈیا سے ہوتی ہوئی سوئیڈن پہنچی ہے۔

سوئیڈن کی ایک exhibition designer Lina Sporrong کا کہنا ہے کہ یہ عام عوام کی غیرمعمولی نمائش ہے۔

 (female) Lina “میرے خیال میں اس سے عام افراد کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ میوزیم آکر اس مقام کو دیکھیں جہاں کے وہ باسی ہیں۔ان کی آوازیں اور دیگر تمام چیزیں انتہائی دلچسپ ہیں”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *