Polio in Pakistan پاکستان میں پو لیو
پاکستان میں1994ءمیں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنی بیٹی بختاور کو پولیو کی حفاظتی خوراک پلاکر پہلی بار قومی مہم کا آغاز کیا تھا۔پہلی انسداد پولیو مہم کو سولہ سال گزرنے کے باوجود بھی ملک سے پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔ 1988ءمیں ایک سو پچیس ممالک اس بیماری سے متاثر تھے لیکن اب یہ تعداد کم ہوکر صرف چار رہ گئی ہے۔ پولیو سے متاثرہ بچوں کے کیسز کے حوالے سے پاکستان سرفہرست ہے، جبکہ دیگر ممالک میں بھارت، افغانستان اور نائیجریا شامل ہیں۔
صرف 2010ءکے دوران ہی ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کے دوران 104مرتبہ بچوں کو پولیو وائرس سے بچاﺅ کے حفاظتی قطرے پلائے گئے،یہاں یہ واضح رہے کہ ملک بھر میں چلنے والی سہ روزہ قومی مہم کو National Immunization Days یا N.I.Dکہا جاتا ہے، جو ملک بھر کے تمام اضلاع میں چلائی جاتی ہے، جبکہ ہائی رسک سمجھے جانیوالے علاقوں میں پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کی خصوصی مہم جسے Sub Immunization Daysکہا جاتا ہے،چلائی جاتی ہے۔مگران سب کے باوجود 2010ءکے دوران پولیو کیسز میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ہرسال ملک میں سب سے زیادہ کیسز صوبہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میںسامنے آتے ہیں، تاہم خیبرپختونخوا میں Expanded Programme on Immunization یا EPI کے منیجر جانباز آفریدی کا کہنا ہے کہ 2010ءمیں خیبرپختونخوا میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزارت صحت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 2010ءمیں 138بچے پولیو سے متاثر ہوئے، جبکہ 2009ءمیں یہ تعداد 89 اور 2008ءمیں 117تھی۔گزشتہ سال پولیو کے سب سے زیادہ کیسز خیبرپختونخوا اور فاٹا میں سامنے آئے، جن کی تعداد 94تھی، جبکہ کراچی سمیت سندھ میں 26، بلوچستان میں گیارہ اور پنجاب میں سات پولیو کیسز کی تصدیق کی گئی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں صحت سے متعلق سنگین صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ 2009ءکی نسبت 2010ءمیں پولیو کیسز میں 26فیصد اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق اس اضافے کی بنیادی وجوہات میں سیلاب زدہ علاقوں میں صفائی ستھرائی کی خراب صورتحال ، ایک ہی مقام پر متاثرین کا ہجوم اور تباہی کے باعث بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے کی مہم میں پیدا ہونے والی رکاوٹ ہے۔رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2011ءمیں اس بیماری کی شرح میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی خدشے کا اظہار بلوچستان میں ای پی آئی کے صوبائی کوآرڈنیٹر ڈاکٹر ایوب کاکڑ نے کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ بلوچستان میں رواں سال اور گزشتہ سال گیارہ، گیارہ کیسز سامنے آئے ہیں، تاہم 2010ءمیں تین مریض سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے سامنے آئے ہیں۔
سندھ میں ای پی آئی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر مظہر Khamisaniکا تو یہ کہنا ہے کہ صوبے میں تمام کیسز سیلاب زدہ علاقوں میں سامنے آئے ہیں،جبکہ کسی اور جگہ کوئی مریض رپورٹ نہیں ہوا۔
ہرضلع اور تحصیل سمیت یونین کونسل ہرجگہ ای پی آئی اور عالمی اداروں کے نمائندے انسداد پولیو مہم کا اہتمام کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق 1994 ءمیں پاکستان میں سالانہ تیس ہزار بچے پولیو سے مفلوج ہو رہے تھے، لیکن دس سال کی مربوط کوششوں کے بعد یہ تعداد سو سے بھی نیچے لائی گئی۔مگر گزشتہ چھ سال کے دوران اسکی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،جسکی وجہ عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں انسدادپولیو مہم نہ ہونا ہے۔
حکومت نے سال 2011 ءکے دوران ملک سے پولیو کے خاتمے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حفاظتی مہم کے دوران ایف سی سمیت دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شامل کرنیکی حکمت عملی پر غور شروع کردیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے یا بچے اس موذی مرض کے باعث معذوری کا شکار بنتے رہیں گے۔