Written by prs.adminSeptember 3, 2012
(Saving Bengal Tigers from Tourism )بھارت میں بنگال ٹائیگرز کا تحفظ
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
بھارتی سپریم کورٹ نے ملک میں شیروں کیلئے مخصوص علاقوں کی سیاحت پر عارضی پابندی عائد کردی ہے۔ بھارت میں شیروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے، اور اس وقت ملک میں صرف سترہ سو شیر موجود ہے، جبکہ ایک صدی قبل یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی۔
بھارت جنگلی شیروں کی سب سے بڑی آبادی والا ملک سمجھا جاتا ہے، یہاں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد افراد شیروں کے علاقوں میں گھومنے کیلئے جاتے ہیں۔ اس صنعت سے سالانہ پچیس لاکھ ڈالر کمائے جاتے ہیں۔
مگر کرہ ارض میں شیروں کی نسل کے خاتمے کا خطرہ سامنے آگیا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ غیرقانونی شکار ہے۔ ماہر جنگلی حیات Ajay Dubey کا کہنا ہے کہ کمرشل سرگرمیاں اور انسانی مداخلت بھی اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
(male) Ajay Dubey “میرے خیال میں اس قسم کی سیاحت شیروں کی آبادی بڑھانے میں مددگار نہیں ہوتی، بھارت میں شیروں کے متعدد ایسے علاقے ہیں، جہاں سے شیروں کا ہی خاتمہ ہوگیا ہے، حالانکہ وہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ سیاحوں کی گاڑیاں ایسے علاقوں میں داخل ہوجاتی ہیں جن سے شیر غضبناک ہوجاتے ہیں۔ 2010ءمیں Bandhavgarh کے علاقے میں شیروں کا سفاکانہ قتل بھی غیرذمہ دارانہ سیاحت کا ایک اور ثبوت ہے۔ میرے خیال میں اس صنعت کو قوانین کے دائرے میں لانا بہتر آپشن ہے۔ شیروں کا تحفظ اس بے فضول سیاحت سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ سیاحت Wildlife Protection Act, 1972 کے تحت ہونی چاہئے، جس کے مطابق سیاحوں کو مخصوص علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں”۔
سیاحت کے اثرات سے پریشان Ajay Dubey نے اپنی تشویش کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے ایک درخواست دائر کی جس میں کہا تھا کہ حکومت شیروں کے علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں کو ضابطے میں لائے۔
اجے(male) “میں 1972ءکے Wildlife Protection Act پر عملدرآمد چاہتا ہوں۔ یہ قانون کہتا ہے کہ شیروں کی خاص عادات اور علاقوں کو انسانی سرگرمیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ اس قانون پر عملدرآمد شیروں کے تحفظ کیلئے ضروری ہے”۔
اس درخواست پر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ان علاقوں میں سیاحت کو عارضی طور پر ممنوع قرار دیدیا۔ وسیم قادری National Tiger Conservation Authority سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
وسیم قادری(male) “سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شیروں کے لئے مخصوص علاقوں کے مخصوص مقامات پر کسی قسم کی سیاحت نہیں ہوگی۔ عدالت نے تمام ریاستوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فیصلے پر عملدرآمد کرے اور اس حوالے سے بیان حلفی جمع کرائیں۔ عدالت نے تمام ریاستوں کو دو بار ہدایت کے باوجود بیان حلفی جمع نہ کرانے پر دو سو ڈالر کا جرمانہ بھی کیا ہے”۔
مگر اس سیاحت کے آپریٹرز اپنے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ Aditya Singh، راجھستان کی ریاست میں شیروں کیلئے مخصوص Rathambore Tiger Reserve میں ایک ریزورٹ کے مالک ہیں۔
آدیتیہ سنگھ(male)”میں اس حکم پر خوش نہیں، یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، تاہم ابھی کیس زیرسماعت ہے۔ اس لئے میں عدالتی حکم پر کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مگر اس سے ہمارا روزگار متاثر ہوگا۔ شیروں کے علاقے کے ارگرد متعدد چھوٹے قصبے اور دیہات موجود ہیں جن کاروزگار سیاحت پر ہی منحصر ہیں۔ یہ فیصلہ تباہ کن ہے”۔
فروری میں راجھستان میں شیروں کے تحفظ کیلئے ایک پورے گاﺅں کو ہی نقل مکانی کرنا پڑی تھی، ان لوگوں کو نئی زمین پر منتقل کیا گیا، جبکہ انہیں ایک لاکھ روپے سے زائد دیئے گئے۔ تاہم ابھی بھی راجھستان میں شیروں کے خاص علاقے میں گیارہ دیہات موجود ہیں، جہاں پچیس سو سے زائد افراد مقیم ہیں۔
انیل سنگھ کی زندگی کا انحصار ہی شیروں کے علاقے میں سیاحت پر ہے، وہ مدھیہ پردیش میں واقع Satpura tiger reserves ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انیل سنگھ(male) “اگر یہ پابندی برقرار رہی تو ہمیں ملازمت کے بغیر رہنا پڑے گا۔ روزگار کے حصول کیلئے میرے پاس کوئی اور صلاحیت نہیں۔ میرے خیال میں اس سیاحت پر پابندی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا، ہزاروں افراد کا روزگار اس سیاحت سے منسلک ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کو ان حقائق کا بھی جائزہ لینا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply