
Written by prs.adminApril 30, 2013
India-EU Trade Agreement Under Fire -بھارت اور یورپی یونین کا آزاد تجارت کا معاہدہ تنقید کی زد پر
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارت اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ یافری ٹریڈ ایگریمینٹ پر بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہے، ایک طرف بھارت اپنی برآمدات بڑھانا چاہتا ہے، وہیں دوسری جانب یورپی یونین بھی بھارت کی ترقی کرتی مارکیٹ میں آزادانہ رسائی چاہتی ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ایک ہزار سے زائد طبی رضاکار اور ایڈز، تپ دق اور کینسر کے مریض نئی دہلی میں پارلیمنٹ کے قریب دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ یہ مظاہرین بھارت اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے یا ایف ٹی اے کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان لوگوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں، جن پر لکھا ہے ہماری زندگیوں کی تجارت نہ کرو، اور ہماری ادویات سے ہاتھ دور رکھو۔
سیٹینڈر چوہدری ایچ آئی وی کے شکار ہیں، وہ بھی ان مظاہرین میں شامل ہیں۔
چوہدری”یہ ہماری زندگیوں اور موت کا معاملہ ہے، اگر یہ معاہدہ ہوگیا تو ہمیں اپنی تمام آمدنی ادویات پر خرچ کرنے پڑے گی، پھر میرے خاندان اور میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ کیا ہم بھیک مانگیں گے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے چور بن جائیں گے؟”
یورپی یونین اور بھارت کے درمیان ایف ٹی اے کیلئے بات چیت چھ برس سے جاری ہے، بھارت اپنی برآمدات کو توسیع دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری میں اضافہ چاہتا ہے، جبکہ یورپی یونین بھارتی مارکیٹ میں اپنے بینکنگ شعبے اور کنزیومر مصنوعات کی آزادانہ رسائی چاہتی ہے۔ یورپی یونین نے اس سلسلے میں بھارت سے کاپی رائٹس پر سخت کنٹرول اور کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی تیار کردہ ادویات کے حوالے سے ڈیٹا تیار کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے۔ ایک وکیل اور طبی رضاکار کاجل بھردواج ا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو مارکیٹ سے سستی دیسی ادویات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
کاجل”اگر ہم ادویات کا کلینکل ٹرائل کرائیں گے تو ہمیں اپنا ڈیٹا انڈین کے پاس جمع کرانا ہوگا، اور ایک یہ ڈیٹا مرتب ہوگیا تو ہم کوئی اور دیسی دوا رجسٹر نہیں کراسکیں گے”۔
انکا کہنا ہے کہ یورپی یونین اس ڈیٹا کو بھارت کی جانب سے ادویات کو رجسٹر کرنے عمل کو پس پشت ڈالنے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
بھردواج “بھارتی قوانین کے تحت کسی دوا کو اس وقت تک پیٹینٹ نہیں کرایا جاتا جب تک وہ بالکل نئی نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں بیرون ملک ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک کمپنی دو ادویات کو ایک گولی کی شکل دیکر پیٹینٹ کیلئے درخواست دے دیتی ہے، اور پھر اس گولی کو شربت بناکر پھر پیٹیٹنت کی درخواست دیتی ہے۔ اور یہ عمل اسی طرح آگے بڑھتا جاتا ہے”۔
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک سوئس کمپنی کی جانب سے کینسر کی ایک دوا کی پیٹینٹ درخواست مسترد کردی تھی، اس فیصلے کا بہت زیادہ خیرمقدم کیا گیا تھا۔ لون گونگٹ کا تعلق دہلی نیٹورک آف پوزیٹیو پیپلز سے ہے، وہ چاہتے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کی عوام کے امور صحت سے متعلق حقوق کا تحفظ کرے۔
لون “ہم لوگوں کو اپنی زندگیوں کی تجارت کی اجازت نہیں دے سکتے، بھگوان نے ہمیں صرف ایک زندگی دی ہے اور یہ برائے فروخت نہیں۔ نو وارٹس نے مجھے مارنے کی کوشش کی، جسے سپریم کورٹ نے روک دیا، اب یہاں مزید پانچ سے چھ افراد مجھے ایف ٹی اے کے ذریعے قتل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مجھے توقع ہے اور مجھے اپنی حکومت اور سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ انصاف کریں گے اور مجھ سمیت ایسے لاکھوں افراد جو بھارتی ادویات پر انحصار کرتے ہیں، کی زندگیاں بچائیں گے”۔
بھارت میں اسی فیصد سے زائد جینرک تیار کی جاتی ہیں، بیشتر ترقی پذیر ممالک اپنی طبی ضرورت پوری کرنے کیلئے بھارتی ادویات پر انحصار کرتے ہیں، خصوصاً ایڈز کے علاج کیلئے۔شیبا، ایڈز کے مریضوں کیلئے کام کرنے والے ادارے ایشیا ءپیسیفک نیٹورک سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ بھارت کو یورپی یونین کا دباﺅ مسترد کردینا چاہئے۔
شیبا”ترقی پذیر ممالک میں ساٹھ لاکھ سے زائد افراد ایچ آئی وی کے مریض ہیں، جن کی زندگی کی بقاءہی بھارت میں تیار ہونے والی سستی اور معیاری ادویات پر ہے۔تو اگر یہ آزاد تجارت کا معاہدہ یورپی کمیشن کی شرائط پر طے پاگیا تو ہمیں یہ سپلائی لائن بند کرنی پڑے گی”۔
حکومت کو بھی یورپی یونین سے مذاکرات خفیہ رکھنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا، جبکہ اب اپوزیشن جماعت بی جے پی نے حکومت سے فوری طور پر یہ مذاکرات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مرلی منوہر جوشی بی جے پی کے سنیئر رہنماءہیں۔
جوشی”آخر حکومت کو اتنی جلدی کیوں ہے؟ اس معاہدے کے حوالے سے سنجیدہ معاملات کو تحمل مزاجی سے حل کئے جانے کی ضرورت ہے، مگر حکومت ملک پر ایک غیرمنصفانہ معاہدہ بغیر کسی مشاورت کے تھوپنا چاہتی ہے۔ اب تک اس حوالے سے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی، آخر ہمیں یورپی یونین کی معیشت اپنے کاشتکاروں، غریب مریضوں اور ڈیری مصنوعات بنانے والوں کی قیمت پر بہتر بنانے کی کیا ضرورت ہے؟”
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |