
Written by prs.adminApril 24, 2013
Hazara Genocide in Pakistan – پاکستان میں ہزارہ برادری کا قتل عام
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
رواں سال کے شروع میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر دو مختلف حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ گزشتہ برس بھی اس برادری کے چار سو افراد مارے گئے تھے۔ ہزارہ برادری کے حوالے سے ہی سنتے ہیں آج کی رپورٹ
علمدار روڈ کوئٹہ شہر کا معروف مقام ہے، یہ ایک چھوٹا سا بازار ہے اور سڑک کے دونوں جانب دکانیں ہیں، یہاں سے آگے بڑھے تو ہزارہ برادری کا رہائشی علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ رواں برس جنوری میں اس جگہ ایک بم دھماکے کے بعد سینکڑوں افراد نے میتوں کے ہمراہ تین روز تک دھرنا دیا تھا، ہزارہ برادری نے اپنے مطالبات تسلیم ہونے تک اپنے پیاروں کی تدفین سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد حکومت نے ان کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اب اس سڑک پر سیکیورٹی بہت سخت ہے اور فوجی اہلکار مارکیٹ میں داخل ہونے والے شخص کی اچھی طرح تلاشی لیتے ہیں۔
مرزا محمد حسن ایک صحافی ہیں، وہ اس بم دھماکے کے عینی شاہد ہیں۔
مرزا حسن”یہاں وہاں لاشیں پڑی تھیں اور ہر جگہ زخمی افراد پڑے ہوئے تھے، وہ بہت بڑا دھماکہ تھا اور دھماکے کے ساتھ ہی لوگ فرش پر لیٹ گئے۔ مجھے لگا کہ یہاں موجود تمام افراد ہلاک ہوگئے تھے، وہ بہت دردناک سانحہ تھا اور لاشوں یا زخمیوں کو لیکر جانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں بھی اسی جگہ مرجاﺅں گا”۔
مرزا محمد حسن نے اپنی نیوز ایجنسی کیلئے ہزارہ برادری کی تصاویر لیں، وہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہزارہ برادری پر کیا ظلم ہورہا ہے۔
مرزا حسن”جب مجھے اپنے بھائی کی موت کا پتا چلا تو مجھے لگ رہا تھا کہ میری زندگی کی ہر چیز تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی موت کے بعد کوئٹہ شہر ہمارے لئے جہنم بن کر رہ گیا ہے۔ ہم اب بازار میں بھی نہیں جاسکتے، ہم اب اپنے گھر سے باہر کام پر نہیں جاسکتے اور ہمیں پورا دن اپنے گھروں میں گزارنا پڑتا ہے۔ مجھے نہیں کہ یہ صورتحال کب معمول پر آئے گی اور ہم کب اپنی زندگیاں پہلے کی طرح گزار سکیں گے”۔
رخسانہ بی بی جنوری میں ہونے والے بم دھماکے سے اپنے بچوں سے مھروم ہوگئی تھیں۔ اپنے گھر کی دیوار پر بیٹھی وہ اپنے تین
مرحوم بیٹوں کی ایک تصویر دکھا رہی ہیں۔
رخسانہ بی بی”میں جب بھی کسی موٹرسائیکل کی آواز سنتی ہوں تو مجھے اپنے بیٹے یاد آجاتے ہیں اور میں رونے لگتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا بیٹا مجھے اسکول سے گھر لے جانے کیلئے آگیا ہے۔ میں نے اسکول انتظامیہ سے کہا ہے کہ جب میں وہاں موجود ہوتی ہوں تو کسی موٹر سائیکل کو آواز پیدا نہ ہونے دیں، میں بم دھماکے میں اپنے تینوں بیٹوں کو کھونے کے بعد بہت اداس ہوں”۔
پاکستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اسی لاکھ افراد مقیم ہیں، جن میں سے نصف کوئٹہ میں آباد ہیں۔ لشکرجھنگوی نامی انتہاپسند گروپ ہزارہ برادری پر کئے جانے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ گزشتہ برس اس گروپ نے کوئٹہ کے تمام ہزارہ افراد کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
تاریخ دانوں کے مطابق ہزارہ برادری کو اس لئے ہدف بنایا جاتا ہے کہ وہ نسلی طور پر مختلف ہے اور انہیں پہچاننا بہت آسان ہے۔ اب تک کوئٹہ میں کم ازکم آٹھ سو ہزارہ افراد ہلاک اور پندرہ سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ اب تک اس قتل و غارت اور بم دھماکوں میں ملوث کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ ہزارہ برادری کی اکثریت کا کہنا ہے کہ حکومت مجرموں کی گرفتاری کیلئے سنجیدہ نہیں، تاہم حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ اب تک ان بم دھماکوں میں ملوث کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ داﺅد آغا بلوچستان شعیہ کانفرنس کے صدر ہیں، ہزارہ ہونے کی حیثیت سے انکا اصرار ہے کہ حکومت کو اس قتل و غارت کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئے۔
داﺅد آغا”یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرے اور ہم اپنی ریاست سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے کسی اقدام سے قبل ہمیں تحفظ فراہم کرے۔ہم دنیا بھر کی شعیہ برادری اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تعاون اور سیکیورٹی فراہم کرے، کیونکہ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے”۔
کوئٹہ کا قبرستان سوگواروں سے بھرا ہوا ہے، رخسانہ بی بی اچھی زندگی کیلئے دعاگو ہے، ان کی بہو اس وقت چھ ماہ کے حمل سے ہے۔
رخسانہ بی بی”مجھے یقین ہے کہ میری بہو کے ہاں بیٹا ہوگا، میں اس کا نام فرمان علی رکھوں گی اور میری دعا ہے کہ اللہ میری اتنی مدد کرے گا کہ میں اس وقت بھی اپنے پوتے کی مدد کرسکوں جب ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوگا”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |