Wheat Procurement گندم کی کٹائی اور فروخت
پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کاشت کی جانیوالی فصل، گندم کی کٹائی اور فروخت کا عمل جاری ہے۔پاکستان میں اس سال ڈھائی کروڑ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔پاکستان میں گندم کی خریداری وزارت خوراک وزراعت کے زیرتحت ادارے پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن ,پاسکو کے ذمے ہے جو ہرسال ملک بھر میں خریداری مراکز قائم کرکے کاشتکاروں سے گندم خریدتا ہے۔ پاسکو نے گزشتہ ماہ سندھ کی 11 اور پنجاب کی 15تحصیلوں میں گندم کی خریداری کیلئے بالترتیب 11 اور176 مراکز قائم کرکے کاشتکاروں میںباردانے کی تقسیم شروع کرنے اور گندم کی خریداری ساڑھے نوسو روپے فی من کی قیمت پرکرنیکا اعلان کیا تھاجبکہ سندھ اورپنجاب حکومتوں کی جانب سے بالترتیب 388 اور 375خریداری مراکزقائم کیے گئے جنہیں 8 بوری فی ایکڑیا 200 بوری فی کاشتکار تقسیم کرنیکا پابند کیا گیا تھا۔
ان تمام اقدامات کے باوجودبیشتر کسانوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سال گندم کی خریداری میں حکومت غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہے۔
صوبہ سندھ میںبھی کاشتکار باردانہ کی فراہمی اور محکمہ خوراک کے اہلکاروں کی جانب سے ہربوری پر کمیشن لینے جیسی کئی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔وحید احمد نامی کاشتکار اپنی شکایات بتارہے ہیں۔
سندھ میں گندم کے خریداری مراکز میں باردانہ دستیاب نہیں جبکہ دوسری جانب سندھ حکومت کیجانب سے خریداری کاہدف بڑھاکر ایک کروڑ50 لاکھ ٹن کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔کاشتکاروں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیم سندھ چیمبر آف ایگریکلچرکے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل نبی بخش سٹھیو کا کہنا ہے کہ ان اعلانات کا مقصدمحض کاشتکاروں کو آسرا دینا ہے۔
بلوچستان میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ وہاں بھی گندم حکومت کے مقررکردہ نرخوں پر نہیں خریدی جارہی،جبکہ باردانہ کی عدم موجودگی کی شکایات بھی عام ہیں۔کاشتکارحافظ محمد صدیق جعفرآباد کے رہائشی ہیں۔
ان شکایات کی وجہ سے بھرپور فصل ہونے کے باوجود پاکستان میں ایک بار پھر گندم کے بحران کا خدشہ ہے۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے کاشتکار سعد محمد علی کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک اور محکمہ ریوینیوکی کرپشن نے عام کاشتکار کو برباد کر دیا ہے ۔
سیکرٹری خوراک پنجاب عرفان الٰہی گندم کی خریداری میںمحکمہ ریوینیوکو شامل کرنے کا جواز یوں پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں گندم کی سالانہ ضرورت ایک کروڑ نوے لاکھ ٹن ہے جبکہ ڈھائی کروڑ ٹن کے تخمینے کی بنیاد پر حکومت نے 40 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب فلورملزمالکان بھی گندم کی برآمد کے ہدف کے حوالے سے شکوک وشبہات کا شکار ہیں،انکا کہنا ہے کہ آنکھیں بند کرکے گندم برآمدکرنیکی بجائے ایک حدمقرر کی جانا چاہئے۔فضل فلورملز کے مالک محمد امین کا اس بارے میں کہنا ہے ۔
جبکہ الکرم فلور ملز کے اسسٹنٹ منیجر جاوید کے اعتراضات مختلف ہیں۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچرکے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نبی بخش سٹھیو کا کہنا ہے کہ حکومت نے گندم کی پیداوار میں سے صرف 20 فیصد خریدنے کا اعلان کیا ہے مگر باردانہ کی عدم د ستیابی کے باعث 20 فیصد گندم فروخت کرنے میں بھی کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت کی طرف سے کاشتکاروں کیلئے فصل کی بوائی سے لیکر کٹائی اور پھر اسکی فروخت تک کے مراحل میں بہتری لانے کیلئے ہر سال مناسب اقدامات کیے جانے کے تو دعوے کئے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کی بہرحال تصدیق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کسان ہر بار نئی امید لے کر آئندہ سال کا انتظار کرتے ہیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply