Written by prs.adminJuly 4, 2013
We need peace and stability… – افغان امن مذاکرات
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
افغان طالبان نے حال ہی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا پہلا غیرملکی دفتر کھولا ہے، متعدد افراد اسے طالبان کی جانب سے امن مذاکرات اور مصالحت کا اشارہ سمجھ رہے ہیں۔اس بارے میں کابل میں خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی رائے سنتے ہیں کی رپورٹ میں
ایک ہزار سے زائد خاندان مغربی کابل میں واقع کیمپ میں رہائش پذیر ہیں، یہ لوگ خانہ جنگی کے باعث اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، ان کے کئی پیارے مرے گئے، جبکہ گھربار تباہ ہوگئے۔ چالیس سالہ صوفی حیدر اس کیمپ میں اپنے خاندان کے ہمراہ گزشتہ پانچ برس سے مقیم ہیں۔
صوفی حیدر”میں یہاں جنگ کی وجہ سے پہنچا، اس وقت ہر جگہ لڑائی ہورہی ہے، جس کے دوران میرے چچا بھی ہلاک ہوگئے، میں نے انہین کیمپ میں آنے کا کہنا مگر انھوں نے میری بات نہیں سنی۔ ایک رات امریکی فورسز رات کو ہمارے گھر پر دھاوا بول کر انہیں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ میرے ملک میں بہت زیادہ تشدد ہورہا ہے”۔
صوفی صوبہ ہلمند کے ایک کاشتکار ہیں، وہ اب اس کیمپ میں رہنماءکا کردار ادا کررہے ہیں، مگر انہیں کہیں سے امداد نہیں مل رہی۔ انھوں نے اپنی جیبیں الٹ کر دکھایا جس میں صرف ایک ڈالر ہی موجود تھا۔
صوفی”ہماری زندگیاں بدتر ہوچکی ہیں، مگر ہم اب بھی زندہ ہیں، کوئی بھی ہمارے بارے میں سوچنے کیلئے تیار نہیں، ہم اس گرم موسم میں بھی خیموں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں، آخر ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟ یہاں کوئی بجلی نہیں، پنکھا نہیں اور کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں۔ روزگار نہ ہونے کے باعث ہماری آمدنی بھی نہیں، ہمارے رہنماﺅں اچھے گھروں میں ائیرکنڈیشنز میں رہ رہے ہیں اور انہیں سب کچھ حاصل ہے، جب وہ اپنے غریب عوام کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے تو وہ امن مذاکرات کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں؟ ہمارا سب کچھ کھو چکا ہے اور ہمیں امن اور استحکام کی ضرورت ہے”۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پانچ لاکھ کے لگ بھگ افراد اس جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہوئے ہیں، جن میں سے بیشتر ناکافی سہولیات والی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں، رواں برس جنوری میں طالبان نے براہ راست امن بات چیت کیلئے قطر میں ایک سیاسی دفتر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہوگئی ہے۔ محمد سہیل شاہین قطر میں طالبان کے نئے دفتر کے ترجمان ہیں۔
سہیل شاہین”ابھی کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی، ابھی ہمارے پاس دو آپشنز موجود ہیں، ایک فوجی آپشن ، یعنی اتحادی افواج کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا آپشن، جبکہ دوسرا سیاسی آپشن ہے۔ گزشتہ بارہ برس سے ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، وہ ہماری طاقت کو شکست دینے کی کوشش کررہے ہیں، مگر ہماری طاقت مزید بڑھ گئی ہے، اور اب ہم یہاں موجود ہیں۔ یہ ایک اچھا اشارہ ہے کہ انھوں نے بھی اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے، یہ افغانستان کے امن اور استحکام کیلئے بھی اچھا امر ہے”۔
کابل میں صدارتی محل پر طالبان کے حملے کے ایک روز بعد ہی افغانستان اور امریکہ نے طالبان سے امن مذاکرات جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا، قطر دفتر سے طالبان کا جھنڈا اور بینر افغان حکومت کے دباﺅ کے بعد ہٹا دیا، جبکہ اپوزیشن گروپس نے بھی طالبان سے امن بات چیت کا خیرمقدم کیا۔ فضل رحمان اوریا افغان نیشنل الائنس کے ترجمان ہیں۔
فضل رحمان”افغانستان فوجی طاقت سے جنگ ختم نہیں کرسکتا، یہ ضروری ہے کہ تنازعے کے خاتمے کیلئے مذاکرات کئے جائیں۔ تو طالبان کی جانب سے قطر میں کھولا جانے والا دفتر اچھی بات ہے، مگر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اسے اپنی طاقت مضبوط کرنے یا کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ کرسکیں۔ اس کا استعمال صرف امن بات چیت کیلئے ہونا چاہئے”۔
اب واپس بے گھر افراد کے کیمپ پر چلتے ہیں، صوفی حیدر اپنے بیٹوں اور رشتے داروں سے بات کررہے ہیں، انہیں توقع ہے کہ امن بات چیت سے پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔
صوفی حیدر”جب کوئی جنگ نہیں ہورہی تھی تو ہمارے ملک میں زندگی بہت اچھی تھی، ہم اپنے فارم اور باغات میں کام کرتے تھے، ہمارے گھر اچھے تھے، جہاں پانی اور سب کچھ موجود تھا۔ہم پرامن زندگی گزار رہے تھے مگر اب ہم اپنا سب کچھ کھوچکے ہیں، میں جنگ کے باعث اپنے خاندان سے محروم ہوچکا ہوں، ہمیں امن کی ضرورت ہے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |