Written by prs.adminMarch 3, 2013
The Challenges of Being Deaf in Burma-برمی معذور افراد
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
برما کی دو فیصد سے زائد آباد معذور ہے جن کیلئے زندگی آسان نہیں۔ ایسے افراد کیلئے پورے ملک میں صرف چھ حکومتی اسکولز ہیں، جبکہ دیگر نجی یا این جی اوز کے تحت چل رہے ہیں، جبکہ ان کیلئے ملازمتیں تلاش کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔تاہم اب ایک شخص نے بہرے افراد کی محرومیوں کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
رنگون کے میری چیپ مین اسکول میں ساڑھے تین سو طالبعلم زیرتعلیم ہیں۔ 1920ءمیں برطانوی خاتون میری چیپ مین کا تعمیر کردہ یہ اسکول برما میں بہرے افراد کیلئے موجود دواسکولوں میں سے ایک ہے۔اسکول کی ایک استاد اظہار خیال کررہی ہیں۔
ٹیچر” چونکہ یہ اسکول برما میں ہے، اس لئے یہاں لوگوں کو برمی زبان کے اشارے سیکھائے جاتے ہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کو بین الاقوامی اشارے بھی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے”۔
یہ طالبعلم اپنے ہاتھوں کے ذریعے اشاراتی زبان رابطے کیلئے استعمال کرتے ہیں، اگرچہ انہیں اچھی تعلیم دی جارہی ہے مگر ان کا مستقبل غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔ برما میں کسی بھی معذوری کے 15 فیصد افراد کو ہی روزگار دستیاب ہے۔
ٹیچر” یہ لوگ میٹرک کے امتحانات میں کامیابی کے باوجود زیادہ خوش نہیں ہوتے، کیونکہ دیگر افراد کے خیال میں ان طالبعلموں کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بارہ لاکھ برمی شہری کسی معذوری کا شکار ہیں، تاہم حقیقی اعدادوشمار اس سے زائد ہی ہوں گے۔ ان افراد کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک ہوتا ہے اور وہ اکثر مظالم کا شکار بنتے ہیں۔ مارگریڈ کیا میا، میری چیپ مین اسکول کی سربراہ ہیں۔
ماگریڈ” یہاں ایسے متعدد طالبعلم موجود ہیں جو دیگر عام بچوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہیں۔ تاہم انہیں بس بولنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ وہ حس سماعت سے محروم ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ان طالبعلموں کیساتھ دیگر افراد جیسا مساوی سلوک کیا جائے”۔
اسکول میں ان بچوں کو تیکنیکی تربیت جیسے سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا وغیرہ بھی سیکھایا جاتا ہے، مگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ان طالبعلموں کی رسائی سے دور ہیں، جیسے وہ خبریں سننے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ سن نہیں سکتے، تاہم اب پہلی بار بہرے افراد کیلئے ایک ادارے نے خبرنامہ شروع کیا ہے، جس میں اشاراتی زبان والے اینکرز خبریں پڑھتے ہیں۔
ٹیچر” ٹی وی پر یہ اشاراتی خبریں پڑھنے والے بہروں کی اس زبان سے بخوبی واقف ہے، ہمارے طالبعلم چونکہ ابھی زیادہ الفاظ سمجھ نہیں پاتے اس لئے وہ ٹی وی پر اشاراتی خبرنانہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں، اور وہ اسے بہت دلچسپی سے دیکھتے ہیں”۔
اس خبرنامے کو بو بو کیانگ ٹی وی پر پیش کرتے ہیں، وہ پندرہ سال کی عمر میں ایک حادثے کے باعث حس سماعت سے محروم ہوگئے تھے، تاہم چونکہ ان کے والدین پہلے ہی بہرے تھے اس لئے وہ بچپن سے ہی اشاراتی زبان سے واقف تھے۔تاہم برما میں اشاراتی زبان کیلئے کوئی معیاری نصاب موجود نہیں، ماضی میں لوگوں نے اس حوالے سے کتابیں شائع کرنے کی کوشش کیں مگر حکومت نے ایسا کرنے نہیں دیا۔
بوبو کیانگ” برمی اشاراتی زبان حکومتی مداخلت کے باعث تاحال مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ حکومت مخصوص الفاظ اشاراتی زبان میں شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ اپنی پسند کے الفاظ ہی اس میں شامل کرنے دیتی ہے”۔
چونکہ ابھی تک برمی اشاراتی زبان عام نہیں، اس لئے بہرے طالبعلموں کو ایک دوسرے سے رابطے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
بوبو کیانگ” ابھی تک اس اشاراتی زبان میں بس چند ہی برمی اشارے موجود ہیں، جبکہ دیگر امریکی، آسٹریلین اور تھائی اشارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ بچے اسکول سے فارغ ہوتے ہیں تو انہیں باہر کی دنیا میں دیگر افراد سے رابطے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے”۔
ایڈن رنگون میں جسمانی اور ذہنی طور پر معذور بچوں کیلئے پہلا نجی ڈے کئیر سینٹر ہے، یہاں نہ صرف دیکھ بھال اور علاج کیا جاتا ہے بلکہ بچوں کو سیکھایا جاتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی معذوری پر قابو پائیں۔ہیر اوٹ اس مرکز کے بانی ہیں۔
ہیر اوٹ “ ہم بس اپنی تعلیم اور تجربے کو ان معذور بچوں کے کیساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں”۔
وہ عام افراد میں معذوروں کے حوالے سے روئیے میں تبدیلی کیلئے بھی مہم چلا رہے ہیں، تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔
ہیر اوٹ “ معذور افراد کے حوالے سے عام لوگوں کا رویہ انتہائی منفی ہے، جب لوگ کسی معذور سے ملتے یا دیکھتے ہیں تو ان کے جذبات منفی ہوتے ہیں، اس چیز نے ہمارے کام کو مشکل بنادیا ہے”۔
برما میں جاری اصلاحاتی عمل کے باوجود تاحال معذور افراد کی بحالی نو کیلئے کافی کام کئے جانے ضرورت ہے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |
Leave a Reply