(Survivors of communal riot in Gujarat trying to reconsile with the past ) گجرات فسادات کے متاثرین ماضی کو بھلانے کیلئے کوشاں
(Survivors of communal riot in Gujarat trying to reconsile with the past ) گجرات فسادات کے متاثرین ماضی کو بھلانے کیلئے کوشاں
(India Gujarat reconciliation) بھارتی گجرات فسادات
بھارتی ریاست گجرات میں بدترین ہندو مسلم فسادات کو دس برس بیت گئے، ان فسادات میں دو ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ایک دہائی بیت جانے کے باوجود متاثرین تاحال ماضی کی خوفناک یادوں کو بھلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں
Naroda Patiya ریاست گجرات کے صدر مقام احمد آباد کا ایک مسلم رہائشی علاقہ ہے۔ یہ دس سال قبل بدترین فرقہ وارنہ فسادات سے بھی بری طرح متاثر ہوا تھا اور یہاں سو سے زائد افراد قتل کردیئے گئے تھے۔
آج یہاں بچے اپنے گھروں کے احاطوں میں کھیل رہے ہیں، جبکہ خواتین کپڑے دھو رہی ہیں۔ فاطمہ بی بی ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ بتا رہی ہیں کہ کس طرح ہندو شرپسندوں نے ان کے خاندان پر حملہ کیا۔
فاطمہ(female)”میری بہن بھاگ نہیں سکتی تھی اس لئے اس نے کونے میں چھپنے کی کوشش کی، ہندو شرپسندوں نے سب سے پہلے میری بہن کو ہی نشانہ بنایا اور پھر ہر طرف خون پھیل گیا۔ وہ رو رہی تھی اور چیخ رہی تھی خدارا یہ رقم لے لوں میری ساری دولت لے لوں میرا سب کچھ لے لوں، مگر میرے خاندان کو چھوڑ دو۔ شرپسندوں نے رحم کی یہ درخواست مسترد کردی اور اس پر ڈیزل اور پیٹرول پھینک کر آگ لگادی۔ اس کے بعد وہ ایک ایک کرکے لوگوں کو اس آگ میں پھینکنے لگے۔ میرا پوتا تین ماہ کا تھا، ظالموں نے اسے بھی آگ میں پھینک دیا۔ آخر ایک بچہ مندر یا مسجد کے بارے میں کیا جانتا تھا؟ انھوں نے تو بچے کو بھی نہیں چھوڑا”۔
فاطمہ بی بی کا کہنا ہے کہ پولیس وہاں کھڑی دیکھتی رہی اور تشدد روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔
فاطمہ بی بی(female)”میں پولیس سے مدد مانگنے کیلئے گئی، انھوں نے میرے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے کہا کہ میرے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔جس پر میں نے کہا کہ بھائی کیا میں نے کچھ غلط کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو مجھے مارو مگر ان چھوٹے بچوں کو تو چھوڑ دو۔ پولیس نے کہا کہ ان کے پاس ہمیں بچانے کے احکامات نہیں، ہمیں اوپر سے خاموش رہنے کا حکم ملا ہے تو اب ہم کیا کریں؟ شرپسندوں نے ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا، اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے غم کو بھول جائیں، آخر ہم کیسے سب کچھ بھول جائیں؟ انھوں نے اس وقت ہمارے ساتھ بہت برا کیا، آپ بتائیں ہم وہ سب کچھ کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟”۔
فاطمہ بی بی اس وقت اپنے بھانجے اور بھانجی کے ساتھ رہ رہی ہیں، جو فسادات کے دوران یتیم ہوگئے تھے۔ایک فلاحی ادارہ Self Employed Women’s Association یا SEWA ان کے اسکول کے اخراجات برداشت کررہا ہے۔
آج اسکول میں SEWA کی عہدیدار Prutha Vyas بچوں سے مختلف سوالات پوچھ رہی ہیں۔ فسادات کے بعد سے یہ ادارہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے خصوصی کلاسوں کا انعقاد کرچکا ہے۔ Prutha Vyas کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کو خوف کے عالم سے نکالنے کا بھی کام کررہی ہیں۔
” (female) Prutha Vyasبچوں کیلئے وہ صورتحال بہت خراب تھی، بچوں نے پہلے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ ان کے گھر جلائے گئے، ان کے خاندان کو ان کی آنکھوں کے سامنے جلا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بچے ذہنی امراض کا شکار ہوگئے۔ ہم نے ریلیف کیمپوں میں چائلڈ کیئر سینٹر چلائے تاکہ وہ ان امراض پر قابو پاسکیں۔ ہم نے ایک لائبریری قائم کی اور بچوں کیلئے دیگر مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا۔ ہم نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ وہ بجے المیہ ماحول سے نکل کر معمول کی زندگی گزار سکیں”۔
شمع بانو کے شوہر فسادات کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ وہ اب اپنے سات بچوں کی نگہداشت کیلئے تنہا رہ گئی ہیں۔
شمع بانو(female)”جب میرے شوہر دنیا سے چل بسے تو اس وقت میں ایک گھریلو عورت تھی، میں بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کاج پر ہی توجہ دیتی تھی، میں کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی، میرے شوہر ہی سبزیاں یا دیگر اشیاءلاکر دیتے تھے تو میں کھانا پکاتی تھی۔جب میرے ساتھ وہ سب کچھ ہوا تو میں نے سوچا کہ آخر میں اب کیسے زندہ رہوں گی، میرے سات بچے ہیں، جن میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، اور میرے ماں، باپ یا بھائی بھی نہیں ہے جس پر میں انحصار کرسکوں۔ تو آخر میں ان کی دیکھ بھال کیسے کر سکوں گی؟”
SEWA شمع جیسی بیواﺅں کی مدد بھی کررہی ہے اور اس مقصد کیلئے انہیں مختلف ہنر سیکھائے جارہے ہیں۔آج شمع ایک کامیاب خاتون بن چکی ہیں، اور وہ اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی دکان میں بچوں کیلئے قلفیاں فروخت کررہی ہیں۔ فسادات کے متاثرین نے اپنے ماضی کی یادوں پر قابو پانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں، تاہم ان ناخوشگوار واقعات کو بھلانے کیلئے
وقت درکار ہے۔متعدد متاثرین اس وقت انصاف کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جن میں کچھ افراد کو زرتلافی مل چکی ہے اور ان کے حملہ آور جیل بھی پہنچ چکے ہیں۔تاہم سماجی کارکن Teesta Setalvad کا کہنا ہے کہ زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ آئندہ اس طرح کے تشدد کو روکا جائے۔
” (female) Teesta Setalvad ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس بات کو سمجھیں کہ ہمیں مختلف برادریوں کے تعلقات کے امور پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی عوامل پر غور کرنا ہوگا، اور سمجھنا ہوگا کہ ہمیں کس طرح کی سماجی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ تشدد کی روک تھام انتہائی ضروری امر ہے اور سیاسی حلقوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے۔ اگر آپ گجرات فسادات کی دس سال بعد بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس واقعے کے بعد ہمارا ردعمل ناقص تھا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم آئندہ تصادم کے امکانات کو پہلے سے بھانپ کر اسے روکنے کا کام کریں۔اگر ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو اس طرح کے آثار کو جاننا کوئی ناممکن کام نہیں”۔
نریندر مودی 2002ءکے فسادات کے وقت سے گجرات کے وزیراعلیٰ منتخب ہوتے آرہے ہیں، آج کل وہ تیسری مدت کیلئے مہم چلارہے ہیں۔انکی جماعت بی جے پی پر ہی دس سال قبل ہونیوالے خونریز فسادات کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اور بھارتی سپریم کورٹ نے ان فسادات میں مودی کا کردار جاننے کیلئے تفتیش بھی کرانا شروع کردی ہے۔ تاہم دس سال گزر جانے کے باوجود تاحال کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کو ان فسادات پر سزا نہیں ہوسکی ہے۔
احمد آباد کے قریب واقع مسلم علاقے Pirana میں مسلمان اذان دے رہے ہیں، جبکہ ہندو مندروں میں گھنٹیاں بھی بج رہی ہیں۔ دونوں مذاہب کی عبادت گاہیں گزشتہ پانچ سو سال سے ایک ہی چھت تلے موجود ہیں، اس باہمی اتفاق کے باوجود سیاست دان اپنے مفادات کیلئے ان دونوں مذاہب کو لڑانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |
Leave a Reply