Street Children آوارہ بچے
شہروں میں جا بجا پھیلا سڑکوں کا جال ذریعہ آمدورفت ہی نہیں بیشتر خاندانوں کا ذریعہ آمدنی بھی ہے۔انھی سڑکوں پرکسی سگنل تو کسی فٹ پاتھ پر کہیں بھیک مانگنے والے تو کہیں اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرنے والے دکھائی دیتے ہیں جن میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے جن کا بچپن انھی سڑکوں پر رُل جاتا ہے۔۔۔زمانے کے بے رحم تھپیڑے کھانے والے ان بچوں میں کم عمر لڑکیوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ، ماں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چادریں بیچتے، کسی نہ کسی سگنل پر پھول بیچتے ہوئے ہر قسم کی نظریں، رویے اور جملے سہتی ہیں تاکہ اپنے خاندان کیلئے روزی روٹی کا وسیلہ کر سکیں۔
مددگار ہیلپ لائن سے منسلک ارفع زینب کا کہنا ہے کہ ان کشادہ شاہراہوں پرگھومنے والی ان کم عمر لڑکیوں کی بڑی تعداد جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ والدین کے زیر سایہ گھروں کے پر سکون ماحول میں زندگی گزارنے والی لڑکیوں کی نسبت کھلے آسمان تلے زمانے کے سرد و گرم سہنے والی ان بد نصیب لڑکیوں کیلئے زیادتی بھی زیادتی نہیں سمجھی جاتی!
جن گھرانوں میں غر بت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں اور ماں باپ کے پاس بچوں کو دینے کیلئے بنیادی ضروریات زندگی تک نہ ہوں،اُن گھروں کے بچے بلآخر انھی سڑکوں کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں:
سڑکوں پر بھیک مانگنے او ر مختلف اشیاءبیچنے والے بچوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی یکساں تعداد دیکھنے میں آتی ہے جبکہ لڑکیوںمیں جسمانی اور جنسی تشدد کے علاوہ منشیات کے استعمال کا رجحان بھی پایا جاتا ہے:
ارفع زینب کا کہنا ہے کہ کسی سگنل پر تو کسی بس اسٹاپ پر بھیک مانگتی یا مختلف چیزیں بیچتی یہ لڑکیاں جس قسم کے ماحول اوررویوں کا سامنا کرتی ہیں وہ اُن کی شخصیت اور زندگی پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں :
مددگار ہیلپ لائن سے منسلک ارفع زینب سڑکوں پہ بھیک مانگنے اور محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے پیچھے موجود مافیا کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتی ہیں:
سیاہ کولتار کی سڑکوں پر اپنا بچپن اپنی معصومیت گنوا دینے والی یہ کم سن لڑکیاں نہ جانے زمانے کے کون کون سے روپ دیکھتے اپنی عمر سے کہیں آگے نکل جاتی ہیں،پر انکے ہونٹوں پر تالے پڑے رہتے ہیں بولتی ہیں تو صرف اِنکی آنکھیں، جو اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کی کہانی کھلے عام بیان کرتی ہیں۔۔۔