Written by prs.adminJuly 3, 2013
Pushing for a Total Ban on Sharkfinning in Indonesia – انڈونیشیاءمیں شارک کے شکار پر پابندی کی کوشش
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ انڈونیشیاءدنیا میںشارک فنزیا شارک کے پروں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، ان پروں کے حصول کیلئے ہر سال ڈیڑھ لاکھ کے قریب شارکس کو ہلاک کردیا جاتا ہے، جسکے نتیجے میں شارک کی متعدد اقسام کے خاتمے کا خطرہ درپیش ہوگیا ہے، تاہم ایک گروپ نے اس شکار پر پابندی کیلئے مہم شروع کی ہے، اسی بارے میں سنتے ہیںآج کی رپورٹ
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈز کی انڈونیشیاءشاخ نے ایک مہم شروع کی جس کے تحت شارک کے شکار پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اس تقریب کا انعقاد کورل ترینگلے ڈے پر ہوا، جس کے دوران لوگوں نے شارک کا بہروپ بھررکھا تھا۔ نوجوان اداکار رنگو اگس رحمان اس ایونٹ میں شریک
ہیں۔
رحمان”میں شارکس سے محبت کرتا ہوں، کیا آپ شارکس سے محبت کرتے ہیں؟ یا آپ اس سے ڈرتے ہیں؟ بری شارکس صرف فلموں میں ہی ہوتی ہیں، جیسے جاز یا ڈیپ بلیو سی (سمندر ) جیسی فلموں میں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ شارکس کے ہاتھوں ہلاکت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، اس سے بھی زیادہ لوگ ٹریفک حادثات، ملیریا، کتے کے کاٹنے یا بجلی گرنے سے مرجاتے ہیں، تو آپ خود فیصلہ کریں کہ شارک کو کسی بھی حالت میں نہیں کھائیں گے”۔
تاہمشارک فن سُوپ جکارتہ کے چینی ریستوران کے مقبول ترین کھانوں میں سے ایک ہے، اسے پرتعیش سمجھا جاتا ہے، اور اسے خصوصی مواقعوں جیسے شادیوں یا ظہرانوں وغیرہ میں بھی رکھا جاتا ہے۔ اس ریستوران کی مالکہ پارٹریکا کوہکا کہنا ہے کہ اس سوپ کی طلب بہت زیادہ ہے۔
پٹریکیا”اس کا انحصار پیالے کے حجم اور اس میں مچھلی کی مقدار پر ہے، تاہم سب سے سستا پیالہ بھی ستر ڈالرز کا ہے، جبکہ سب سے مہنگا دو سو ڈالرز کا ہے”۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے انڈونیشیاءمیں سربراہ ایفرنس جااس حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں۔
ایفرنس جا”شارک مچھلی کو سمندر سے زندہ پکڑا جاتا ہے، جس کے بعد اس کے فن کو کاٹ لیا جاتا ہے اور دھڑ کو واپس سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ شارک فن بالکل ایسے ہیں جیسے کسی طیارے کیلئے اس کے پر، شارکس کو تیرنے اور پانی میں اوپر نیچے ہونے کیلےءاس کی ضرورت ہوتی ہے، جب یہ کٹ جاتے ہیں تو شارک کیلئے آکسیجن کے حصول کیلئے تیر کر اوپر نہیں آیا جاتا اور وہ مرجاتی ہے،فنز کے بغیر شارک بے بس ہوجاتی ہیں اور انہیں دوسری مچھلیاں کھاجاتی ہیں”۔
تین سال قبل ماحولیاتی گروپس کے دباﺅ پر ہانگ کانگ اور چین کی حکومتوں نے شارکس فنز کا سرکاری ضیافتوں میں استعمال روک دیا تھا، گزشتہ برس ایک آن لائن مہم کے نتیجے میں جکارتہ ائیرپورٹ کی انتظامیہ نے اپنے ریسٹورنٹس میں اس سوپ کی فروخت بند کردی تھی، مگر حکومت نے تاحال اسپر مکمل پابندی پر غور شروع نہیں کیا۔ٹونی روچی مٹ، وزارت سمندری امور و فشریز کے ڈائریکٹر ہیں۔
ٹونی”ہم اس پر مکمل پابندی نہیں عائد کرسکتے ہیں، کیونکہ ابھی بھی بڑی تعداد میں ماہی گیروں کا روزگار اس سے وابستہ ہے، یہ وہ انڈونیشیاءکے سب سے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم اس سوپ کو اپنی تفریح طبع کیلئے استعمال کرتے ہیں اور وہ اسے اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کیلئے فروخت کرتے ہیں”۔
تاہم اب انڈونیشیاءمیںفنز اور شارک سے تیار کی جانے والی دیگر اشیاءکی تیاری سے شارک مچھلیوں کی کچھ اقسام 70 فیصد تک ختم ہوچکی ہیں۔ احمد حفیظ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عہدیدار ہیں۔
احمد”ہمارے اعدادوشمار کے مطابق دس برس پہلے صرف شارک کی پندرہ اقسام کی بقاءکو خطرہ لاحق تھا، مگر اب یہ تعداد ایک سو اسی تک جاپہنچی ہے، یعنی اتنے قلیل وقت میں بارہ گنا اضافہ ہوا ہے”۔
تاہم صورتحال میں تبدریج تبدیلی آرہی ہے۔ رواں برس مارچ میں پانچ اقسام کو عالمی کنونشن میں شامل کیا گیا، تاکہ ان کی تجارت اور شکار کو روکا جاسکے۔اسکا مطلب ہے کہ سرکاری اجازت کے بغیر آٹھ اقسام کی شارک مچھلیوں کا شکار کسی صورت ممکن نہیں۔ ایک حالیہ امریکی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ شارک فن کا سوپ صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، ماہر طب ا یکر لیبانگ اس بات کی وضاحت کررہے ہیں۔
لیبانگ “شارک مچھلیاں سمندر کی سب سے بڑی شکاری ہوتی ہیں، وہ بہت زیادہ کھاتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ شارکس چھوٹی مچھلیاں بہت زیادہ کھاتی ہیں اور ان مچھلیوں میں مرکری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جب لوگ شارکس کھاتے ہیں، تو وہ اس زہریلے مادے کو بھی استعمال کرتے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |