Written by prs.adminSeptember 19, 2012
(Pakistan’s Christian women are taking risks to teach) پاکستانی عیسائی خواتین اساتذہ
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں گزشتہ سال سات سو سے زائد اسکولوں کو تباہ یا نقصان پہنچایا گیا، تاہم اس صورتحال کے باوجود عیسائی خواتین پڑھانے سے پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔
لنڈی کوتل میں چند ماہ قبل اسکول تباہ ہونے کے باعث بچے کھلے آسمان تلے بچے اردو پڑھ رہے ہیں۔
انیس سالہ Carole گزشتہ پانچ ماہ سے یہاں پڑھا رہی ہیں۔ شروع میں تو انھوں نے ہم سے بات کرنے سے انکار کردیا، تاہم ان کے ایک دوست کی مدد سے وہ ہم سے بات کرنے کیلئے تیار ہوگئیں۔ Carole عیسائی ہیں اور انکا کہنا ہے کہ وہ یہاں پڑھا کر بہت بڑا خطرہ مول لے رہی ہیں۔
(female) Carole “ہمیں متعدد دھمکیاں مل رہی ہیں، عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ ہم پر تیزاب پھینک دیں گے۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے متعدد بچیوں نے اسکول آنا چھوڑ دیا ہے۔ میں جب بھی گھر سے باہر نکلتی ہوں تو خدا سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرتی ہوں، مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ میں زندہ گھر واپس آبھی سکوں گی یا نہیں، مگر ان سب کے باوجود مجھے یہاں پڑھانا پسند ہے، میں یہاں کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں”۔
یہاں پڑھانے والے بیشتر اساتذہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے علاقہ چھوڑ کر پشاور چلے گئے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی انتظامیہ عیسائی خواتین جیسے Carole کو ملازمتوں پر رکھ رہی ہے۔Carole نے پڑھانے کی پیشہ وارانہ تربیت حاصل نہیں کررکھی، تاہم انھوں نے اپنے خاندان کی کفالت کے لئے یہ ملازمت قبول کی۔ انہیں اس تباہ شدہ اسکول میں پڑھانے پر ماہانہ ساڑھے تین ہزار روپے ملتے ہیں۔
کیرول(female) “میری چار بہنیں اور ایک بھائی ہے، میرا بھائی مجھ سے چھوٹا ہے، درحقیقت میں اپنے گھر میں سب سے بڑی ہوں۔ میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ہمیں متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں اس طرح میں کسی پر بوجھ بنے بغیر اپنے خاندان کی کفالت کرسکوں گی”۔
اس وقت سرکاری طور پر تو معلوم نہیں کہ کتنی عیسائی خواتین پڑھا رہی ہیں، تاہم اس نئے پیشے نے عیسائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت مقامی لوگوں میں زیادہ بڑھا دی ہے۔ 30 سالہ زیب النساءعیسائی خاتون ہیں، وہ تمام تر خطرات کے باوجود پڑھانے سے محبت کرتی ہیں۔
زیب النسائ(female) “ہمارے لئے اسکول جانا خطرناک ہے، اسکول جاتے ہوئے میرے راستے میں بم دھماکے ہوتے ہیں، اب تک متعدد اسکول تباہ کئے جاچکے ہیں، ہم خوفزدہ ہیں، مگر ان تمام مسائل کے باوجود میں اپنے طالبعلموں کو پڑھانے اسکول آتی ہوں”۔
لنڈی کوتل میں آٹھ سو کے لگ بھگ عیسائی مقیم ہیں، تاہم انہیں شناختی کارڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ انہیں قبائلی علاقوں کا رہائشی نہیں سمجھا جاتا۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث انہیں کام ڈھونڈنے میں مشکل ہوتی ہے، جبکہ وہ حکومتی معاونت کیلئے بھی درخواست نہیں دے پاتے۔
ہم لوگ اس وقت مقامی محکمہ تعلیم کے دفتر میں موجود ہیں، یہاں کے عہدیدار عیسائی اساتذہ کو پسند نہیں کرتے۔
محکمہ تعلیم کا ایک کلرک الزام لگارہا ہے کہ عیسائی اساتذہ بچوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں، مگر اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر خیبرایجنسی ہدایت اللہ کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کو سرکاری طور پر تعلیم دینے سے روکنے کی کوئی پالیسی موجود نہیں۔
ہدایت اللہ” (male) قبائلی علاقوں میںلڑکیوں کو پانچ جماعت کے بعد اسکول جانے کی اجازت نہیں دی جا تی، یہاں لڑکیوں کی تعلیم میں کوئی دلچسپ نہیںکی جا تی۔ یہاں تعلیم کے فروغ کیلئے موزوں ماحول موجود نہیں، علاقے کی سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوجائے تو ہم تعلیم دوست ماحول کو فروغ دیں گے۔ عیسائیوں سمیت ہر ایک کو پڑھانے کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی گروپ اسے پسند نہیں کرتا تو اس کی سوچ غلط ہے۔ ہم نسل و مذہب کے امتیاز کے بغیر تمام اساتذہ کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے”۔
چوبیس سالہ Qasam Afridi پشاور یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت اور قبائلی رہنماﺅں کو طالبان سے اسکولوں کو بچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔
(male) Qasam Afridi “گزشتہ پانچ یا چھ برسوں سے عسکریت پسند اسکولوں کو تباہ کررہے ہیں، مگر حکومت قبائلی عوام خصوصاً خواتین تک تعلیم کی رسائی کیلئے مناسب اقدامات کرنے میں سنجیدہ نہیں۔میرے خیال میں حکومت، قبائلی رہنماﺅں اور طالبان عسکریت پسندوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ قبائلی افراد تعلیم یافتہ افراد کو پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ ان کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ حکومت ایسے علاقوں میں اسکول تعمیر کرتی ہے جہاں باآسانی گھر بنالئے جاتے ہیں۔ میں طالبان کی جانب سے اسکولوں کو تباہ کرنے کی حمایت نہیں کررہا، مگر حکومت اور قبائلی رہنماءبھی تعلیم دشمنی کے یکساں ذمہ دار ہیں۔ ہماری حکومت کو عیسائی اساتذہ کو اچھی تنخواہیں دینی چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply